Har Aane Wala Kal Guzishta Kal Se Badtar Hai
ہر آنے والا کل گذشتہ کل سے بدتر ہے
آٹھ فروری کے جنرل الیکشن کے بعد جو 9، فروری کو ہوا، وہ نہیں ہونا چاہئے تھا، یہ پاکستانی قومی کی توہین ہے، 1977 کے بعد سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں البتہ یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا الیکشن ہے، جو ایک قومی اور مقبول ترین جماعت کا الیکشن اسٹیبلشمنٹ نے لڑوایا۔ جماعت کا قائد اپنی پہلی قیادت کے ساتھ جیل میں ہے، جس سے جماعت کی پہچان انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا، جماعت کے امیدوار یا تو جیل میں تھے یا روپوش تھے۔
اس کے باوجود جس ا کثریت سے وہ جیتے انہیں خود بھی یقین نہیں تھا در اصل، پاکستانیوں کا انتخابی نشان، عمران خان نیازی تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں 1977، کے بعد بار حقِ رائے دہی کے لے عوام گھروں سے نکلی، انہوں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔ ان کے چہرے قومی وقار میں خوشی سے دمک رہے تھے۔ اس لئے کہ ہر پولنگ سٹیشن پر وہ واضح اکثریت سے جیت رہے تھے۔
رات گیارہ بجے تک 150، سے زیادہ نشستوں پر واضح اکثریت سے جیت کی خوشی میں پاکستان بھر میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے، لیکن جب ریزلٹ آنے بند ہو گئے تو خوشی کا رقص تھم گیا کان کھڑ ے ہو گئے اور پھر وہ ہی عمل شروع ہوا، جو نورا کشتی کے دوران ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس بار8 فروری کی رات 12 بجے کے بعد جو ہوا، دیکھ کر دنیا کی انگلیاں دانتوں میں داب کر رہ گئیں اس لئے کہ الیکشن کے بعد اخلاقیات کی تمام تر حدیں عبور کر لیں!
مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف مانسہرہ اور لاہور سے ہار چکے تھے اور پارٹی کے بڑے بڑے برج گر رہے تھے لیکن الیکشن کے بعد، 9 فروری کو آروز الیکشن میں ہارنے والے جیت گئے اور جیتنے والے ہار گئے، تو عام مزدور تک کہنے لگے، اگر یہ ہی کرنا تھا، تو قوم کو الیکشن کی آڑ میں خوار کرنے اور اربوں روپے ضائع کرنے کی کیا ضرورت تھی، لیکن یہ کوئی انہونی نہیں تھی، اسٹیبلشمنٹ نے جو منصوبہ الیکشن سے پہلے بنایا تھا، اس کے تذکرے سوشل میڈیا پر ہو رہے تھے لیکن سنجیدہ پاکستانی یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
مرکز میں اتحادی حکومت، خیبر پختون خوا میں، تحریک انصاف، سندھ میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں اتحادی حکومت۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ جوڑ توڑ اپنی جگہ، لیکن جو قوم اپنے تابناک مستقبل، استحکامِ جمہوریت اور مستحکم پاکستان کے لئے، 8 فروری کو انتخابی تاریخ رقم کرنے کے لئے نکلی تھی، وہ مایوس ہو کر سوچ رہی ہے، کہ آج تک قیادت قومی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کر سکی، قوم کو افواج پاکستان کے جوانوں سے کوئی شکوہ نہیں اگر ہے تو افواجِ پاکستان کے ان جرنیلوں سے، لیکن آج پاکستانی سوچ رہے ہیں کہ پہلے سامراج پرست جرنیلوں سے آزادی حاصل کریں گے، اس کے بعد سامراج کی غلامی کو سوچیں، اس لئے کہ ہمارے دیس میں ہر آنے والا کل گذشتہ کل سے بدتر ہے۔