Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Good To See You

Good To See You

گڈ ٹو سی یو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے نیب آرڈیننس میں ترامیم کے خلاف قیدی نمبر 804 کی درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا ہے، جس کے تحت عوامی عہدے رکھنے والوں کے خلاف نیب کے مقدمات کی واپسی اور نیب کے پاس پچاس کروڑ روپے سے کم کے مقدمات کی تفتیش نہ کرنے سے متعلق شقیں شامل ہیں۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ ترامیم آئین میں مفاد عامہ سے متعلق بنائے گئے قوانین کے خلاف ہیں۔

سپریم کورٹ نے نومبر 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت شروع کی تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے 40 سے زیادہ سماعتوں کے بعد چھ ستمبر کو اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق بل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا لیکن صدر پاکستان عارف علوی نے اس بل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس کی منظوری دی تھی۔

اس طرح چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے اپنے کیریئر کے آخری فیصلے میں، اننگز کے آخری بال پر چھکا مار کر تاریخ رقم کر دی۔ فیصلے سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے آخری سماعت پر کہا۔ گڈ ٹو سی یو آل مائی فرینڈز۔

اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اپنے تحریری فیصلے میں لکھتے ہیں کہ سوال پارلیمانی جمہوریت کی اہمیت اور آئین کے تین ستونوں کے بیچ اختیارات کی تقسیم کا ہے۔ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پارلیمنٹ ہی اپنے بنائے ہوئے قوانین میں ترمیم یا تبدیلی کر سکتی ہے۔ کیس میں سوال غیر قانونی ترامیم کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی بالادستی کا تھا۔ اکثریتی فیصلے نے آئین کے اس واضح حکم کو بھی نظر انداز کیا، جس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست اپنا اختیار منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال کرے گی اور اکثریتی فیصلے نے آئین کے تین ستونوں (پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ) کے بیچ اختیارات کی تقسیم جیسے پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ اپنی جگہ لیکن کیا وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ امریکی درباری پی ڈی ایم قومی مجرم تھی کیا وہ نیب زدہ نہیں تھے، نیب آرڈیننس میں ترامیم ذاتی مفاد کے لئے نہیں تھے۔ آئین اور پارلیمنٹ کے تقدس اور احترام قوم بھی جانتی ہے، لیکن رات بارہ بجے لگنے والی عدالت کے فیصلے خامو شی بھی ایک سوال ہے، عوام کی منتخب حکومت کو گرا کر مغربی غلام ٹولے کو پارلیمنٹ میں بٹھا دینا عوام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اقدار کی تو ہین کیا آئینی اقدامات تھے۔

کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے کہ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکمرانی میں ذاتی مفادات۔ اپنے خلاف زیر سماعت مقدمات ختم کرنے کے لئے نام نہاد قانو ن ساز ی کے علاوہ اگر کچھ کیا تو وہ مہنگا ئی کا طوفان ہے جس نے غریب تو کیا سفید پوشوں کو آنے والے کل کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے!

حاکم ایماندار ہو تو ریگستان دبئی بن جاتا ہے اگر بے ایمان ہو تو معدنیات سے شاداب پاکستان بھکاری بن جاتا ہے، ہم اس پاکستان کے باشندے ہیں جس کے ہوٹل میں کھانا شیطان کھا جاتے ہیں اور بل، بجلی کے بل میں غریب پاکستانی ادا کرتے ہیں۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin