Arshad Sharif Qatal Case
ارشد شریف قتل کیس
پاکستانی صحافی ارشد شریف کی شہادت کے معاملے میں ان کی بیوہ جویرہ صدیق کی جانب سے دائر کردہ درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے کینیا میں ہائی کورٹ کی جج جسٹس سٹیلا موٹوکونے کینیا حکومت کو اس واقعے کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ کینیا میں ہر شخص آئین اور قانون کے سامنے برابر ہے اور اسے زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔
پاکستانی صحافی پر کینیا کی پولیس کے اہلکاروں کی فائرنگ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ارشد شریف پر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے اور ارشد شریف کی بیوہ کو ایک کروڑ کینین شیلنگ (78، ہزار امریکی ڈالر بطور زر تلافی ادا کیئے جائیں)۔
یاد رہے کہ ارشد شریف اپریل 2022 میں سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد پاکستان چھوڑ کر چلے گئے تھے خود ساختہ جلا وطنی کے دوران وہ پہلے دبئی پھر لندن اور پھر کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں مقیم تھے۔ 22 اکتوبر، 2022 کی شب وہ نیروبی سے 110 کلومیٹر کے فاصلے پر مگاڈی کے غیر آباد علاقے میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے شہیدہو گئے تھے۔
کینیا کی عدالت نے اپنے ملک کی حکومت کی نااہلی پرایک غیر ملکی کو قتل کئے جانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا اور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے پاکستان کے اس ایوان عدل کو آئینہ دکھایا ہے جس میں شہید کی بیوہ آج بھی اپنے شوہر کے قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کیے جانے کی منتظر ہیں لیکن ہم پاکستانی جانتے ہیں کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالت ارشد شریف کے قاتلوں اور سہولت کاروں کو بے نقاب کرکے اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیسے مار سکتی ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قانون حاکم وقت کا غلام ہے، پاکستان کے نظام عدل میں حق اور صداقت کا خون ہوا کرتا ہے، عدالتوں میں فیصلے اس وقت ہوتے ہیں جب مقدمے کا عام شہری مدعی عدالتوں کے چکر کاٹ کاٹ کر، اپنا گھر بار، گھر کے برتن تک نیلام کرکے عدالت کی دہلیز پر سسک سسک کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے اور خاص مجرم شہری زندہ ہونے کے باوجود کرسیء عدالت پر کعبے کے غلاف جیسے لباس میں ملبوس جج کو نظر نہیں آتے۔ اس لئے کہ پاکستان میں عدل کی آنکھوں پر سیاہ پٹی ہوا کرتی ہے فیصلے ان کی منشا کے مطابق ہوتے ہیں جن کے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کی شہادت عدالتی قتل تھا، ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ اگر قتل کے اس بے بنیاد مقدمے سے مجھے بری کر دیا جاتا ہے تو میں اس قتل سے جڑے حقائق سے پردہ ہٹا پاوں گا، یہ بیان پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے مقدمے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے وعدہ معاف گواہ مسعود محمود سے جڑا ہے جنھیں حال ہی میں ملک کی سپریم کورٹ نے جاری ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کے تفصیلی تحریری فیصلے میں اخلاقی پستی کا شکار اور جھوٹا گواہ، قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر ایک معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا، اور یہ کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ جنرل ضیا الحق کو ہوا، اگر ذوالفقار علی بھٹو کو رہا کر دیا جاتا تو وہ ضیا الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔ لیکن اس وقت عدالت آج کی طر ح وقت کے جابر حکمران کی غلام تھی، بھٹو قاتل نہیں تھا ملک کا معزول وزیر اعظم تھا لیکن وردی میں ملبوس حاکم مغرب کا غلام تھا یہ جانتے ہوئے بھی کہ کہ ظالم اور مظلوم دونوں دفن ہو چکے ہیں، کیا ہی بہتر ہوتا کہ عدالت اس وقت کے ظالم آمر کو اس کے جرم کے ارتکاب پر بعد از موت کورٹ ماشل کا حکم بھی دیتی تو انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جاتے۔ لیکن ایسے مشکل فیصلے درباری نہیں کیا کر سکتے۔