Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Aik Khawab

Aik Khawab

ایک خواب

مہنگائی کا شور مچانے والی اپوزیشن کا دور حکمرانی ہم پاکستانیوں نے دیکھا تھا اور دیکھ رہے ہیں۔ جبکہ عمران خان وہ قوم پرست قائد ہے، جس نے حکمرانی کے دوران اور حکمرانی کے بعد بھی قومی لٹیروں کا سکون برباد کر رکھا ہے۔ قوم کے سنجیدہ مزاج جانتے ہیں کہ پاکستان سے کون مخلص ہے اور کون یہودی کا درباری ہے؟

مولانا فضل الرحمان، عمران خان کو اسرائیل کا ایجنٹ کہتے نہیں تھکتے تھے لیکن آج بیٹے کی وزارت اور سرکاری مراعات نے اس کی زبان کو تالے لگا د یئے ہیں۔ وہ ذاتی مفادات پر قومی عظمت اور وقار قربان کر بیٹھے ہیں۔ پی ٹی وی کے احمد قریشی کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف اور ایک اور اہم شخصیت کے اسرار پر اسرائیل کا دورہ کیا، اسرائیلی صدر نے خود تصدیق کی لیکن قوم کے منافق ملا خاموش ہیں۔

کسی دینی جماعت نے امریکی غلام حکومت سے سوال تک گوارا نہیں کیا۔ کہاں ہیں سراج الحق، کہاں ہیں تحریک لبیک کے علم بردار، کہاں ہیں پاکستان عوامی تحریک کے طاہر القادری، کہاں ہیں مولانا طاہر اشرفی؟ کیا ان کو امریکی سانپ سونگ گیا ہے؟ کیا وہ بھول گئے ہیں بابائے قوم محمد علی جناحؒ نے کہا تھا اسرائیل امت مسلمہ کے دل میں گھونپا گیا خنجر ہے، ایک ناجائز ریاست ہے جسے پاکستان کھبی تسلیم نہیں کرے گا۔

یہ ہی بات ذوالفقار علی بھٹو نے کہی تھی، یہ ہی بات عمران خان کہہ رہا ہے لیکن یہود اور ہنود کے کم بخت پرستار خاموش ہیں۔ اسی لئے تو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو بلوچستان میں عوام نے بلدیاتی انتخابات میں مسترد کر کے آزاد امیدواروں کا انتخاب کیا۔ پاکستان کی عوام نے نام نہاد پارلیمانی نظام جمہوریت کو مسترد کر دیا ہے۔ میں نے گزشتہ سال ایک کالم میں لکھا تھا کہ پاکستان میں صدارتی نظام وقت کی ضرورت ہے۔

جماعت اسلامی، پاکستان عوامی تحریک اور تحریکِ لبیک، افرادی قوت پر مشتمل منظم مذہبی اور قومی سیاسی جماعتیں ہیں لیکن ان کی سیاسی پرواز تنہا اور ذاتی مفادات کے گرد طواف کر رہی ہے۔ بات تو نفاذ اسلام اور نظام شریعت کی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کے قول و عمل میں تضاد ہے، اگر یہ مذہبی قیادت اپنے بیانیہ سے مخلص ہیں تو ریاستِ مدینہ کے قیام کے لئے تحریکِ انصاف کے دستِ بازو کیوں نہیں بن جاتے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت اسلامی مخلوق خدا سے محبت کرنے والی سیاسی اور مذہبی جماعت ہے۔ قدرتی آفات کا شکار دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے جماعت اسلامی نے کھبی سرحدوں کی پرواہ نہیں کی، اور جہاں تک ممکن ہو سکا دینِ مصطفٰیؐ کے علم بردار ہونے کا حق ادا کیا۔ اگر جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن اور سنت کی حکمرانی ہو، تو جماعت اسلامی کے سابق امیر مرحوم سید منور حسین نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ عمران خان کی داڑی نہیں لیکن وہ بہت داڑی والوں سے اچھے مسلمان ہیں۔

مرحوم نے درست فرمایا تھا۔ قائدِاعظم محمد علی جناحؒ، حضرت علامہ اقبالؒ، لیاقت علی خان، خان عبدالقیوم خان اور تحریک پاکستان کے دوسرے کئی قائدین کی بھی داڑھی نہیں تھی لیکن انہوں نے دین مصطفیٰ کے پروانوں سے محبت کا حق ادا کر دیا تھا۔ اگر جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ مرحوم سید منور حسین نے غلط کہا تھا تو انہیں سابق امیروں کی فہرست سے نکال دیں لیکن اگر تسلیم کرتے ہیں کہ مرحوم نے درست فرمایا تھا تو سراج الحق اس حقیقت بیانی کو تسلیم کیوں نہیں کر لیتے؟

عمران خان کا خواب "ریاستِ مدینہ" اس لئے اس خواب کی تعبیر کے لئے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے ہو کر عمران خان کو علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے آستین کے سانپوں سے بچائیں۔ شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان میں دین مصطفٰی کے علمبردار تحریک کے قائد ہیں وہ بھی جانتے ہیں کہ یثرب سے مدینہ تک کے سفر میں سرورِ کائنات کو منافقوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں چالیس سال کا عرصہ لگا تھا۔

اگر ڈاکٹر طاہر القادری چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی ریاست مدینہ کی شان اپنا لے تو انہیں پاکستان آنا چاہیے، عملی طور پر میدان عمل میں اترنا چاہئے، لیکن طاہر القادری مغرب میں بیٹھ کے پاکستان میں ماڈل ٹاؤن کے ان قاتلوں کی حکمرانی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں جنہوں نے خواتین اور بچوں سمیت معصوم پاکستانیوں کا خون بے دردی سے بہایا تھا۔ آئیں اور ماڈل ٹاؤں کے شہداء کا قاتلوں سے ان کے ظلم و جبر کا حساب لیں۔

25 مئی کو اسلام آباد میں وہ خونی کھیل کھیلنے والے تھے لیکن کھلاڑی جان چکا تھا اس نے قومی لٹیروں کا ہر داؤ نا کام بنایا۔ وہ طاہر القادری نہیں ریاستِ مدینہ کے لئے پاکستان میں زندہ ہیں اور پاکستان ہی میں دفن ہوں گے۔ اگر علامہ طاہر القادری پاکستان میں دین مصطفیٰؐ کی علم برداری اور ماڈل ٹاؤن کے شہداءکے خون کا حساب وقت کے منافقوں اور یزیدی غلاموں سے لینا چاہتے ہیں تو آئیں پاکستان واپس آئیں، دین مصطفیٰؐ کے علم برداروں کے دست و بازو بن جائیں۔

قیام مدینہ کے دور میں کوئی فرقہ بندی اور فرقہ پرستی نہیں تھی۔ آج بھی شان پاکستان کے لئے اگر مذہبی طبقہ پرستی کو بالائے طاق رکھ کر تحریکِ انصاف، جماعت اسلامی، تحریکِ لبیک اور پاکستان عوامی تحریک، ریاستِ مدینہ ثانی کا علم سر بلند کر لیں تو پاکستان کے منافق اپنی موت آپ مر جائیں گے اور قوم کو موروثی سامراج کے غلاموں، خود پرست نام نہاد پاکستان دوست سیاسی وڈیروں سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ یہ ہی وہ خواب ہے جس کی تعبیر کے لئے ہمارے آباؤ اجداد خون میں نہائے تھے۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas