Aalmi Youm e Azadi e Sahafat
عالمی یوم آزادی صحافت
یوم آزادیء صحافت، کی سالانہ تقریب میں گجرات بھر کے صحافیوں کا کہنا تھا کہ دور حاضر میں صحافی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اس کا ثبوت یوم آزادیء صحافت کے دن بلوچستان میں پریس کلب خضدار کے صدر صدیق مینگل کی شہادت ہے دورِ حاضر میں سچائی کے علمبردار کا صحافی کا سر اس کی ہتھیلی پرہوتا ہے، اس کی سچائی کو معاشرے کے بد کردار زرد صحافت کا نام دیتے ہیں۔
عالمی یوم آزادیء صحافت کے موقع پر گجرات پریس کلب کے زیر اہتمام تقریب، جس میں سابق وفاقی وزیر و مرکزی رہنما پاکستان پیپلزپارٹی چوہدری قمر زمان کائرہ اور جماعت اسلامی گجرات کے امیرچوہدری انصر محمود دھول ایڈوو کیٹ مہمان خاص تھے۔ ان کے ساتھ صدر گجرات پریس کلب سید نوید حسین شاہ، سرپرست اعلی گجرات پریس کلب و چیف ایڈیٹر روزنامہ ڈاک محمد یونس ساقی، سابق صدر گجرات پریس کلب عبدالستار مرزا، سابق صدر گجرات پریس کلب راجہ تیمور طارق اور جنرل سیکرٹری گجرات پریس کلب محمد داود شفیع سٹیج پر تشریف فرما تھے گجرات پریس کلب کے صدرسید نوید حسین شاہ، کی دعوت پر عالمی یوم آزادیءصحافت کی اس تقریب میں ضلع گجرات کے تمام پریس کلبوں کے صدور اور جنرل سیکرٹری شریک تھے
زندہ ضمیر اخبار نویسوں کا کہنا تھا کہ، معاشرتی نا انصافیوں، معاشرتی ناسوروں اور وقت کے یزیدوں کے خلاف! صحافت! باشعور صحافی کے لئے قلمی جہاد ہے، تسلیم کرتے ہیں کہ وطن دوست صحافی کو معاشرتی ناسوروں کے درمیان رہ کے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صحافی اپنے کاز کے حسن کے لئے بہت کچھ برداشت کرتا ہے لیکن آج اپنے پاکستان میں صحافی کی زندگی کربلامیں فرات کے کنارے پیاسوں سے کم نہیں۔
چوہدری انصر محمود دھول ایڈوو کیٹ نے اپنے اظہار خیال میں حکومت وقت کو ان کے نام نہاد اقتدار اور آزادیءاظہار پر پابندی کا آئینہ دکھایا۔ چوہدری قمر زمان کائرہ نے غلط کہا کہ سیاست اور صحافت ایک جان دو قالب ہیں، دراصل سیاست اور وردی ایک جان دو قالب ہیں۔
جب سیاستدان پر جبر ہوتا ہے تو صحافی لکھتا اور بولتا ہے درست ہے لیکن جب پریس کلب خضدار کے صدر صدیق مینگل کی طرح صحافی کی لاش گرتی ہے تو کسی سیاست کی آ نکھ سے ندامت کا ایک اشک تک نہیں گرتا۔
آزاد یء اظہار اور حقوق صحافت کا احترام لازم لازم ہے۔ آج قلم اور زبان پر پابندی مینڈیٹ چور حکمران کی بزدلی ہے اگر وہ قوم اور وطن سے مخلص ہیں تو قلم کو لکھنے دیں، صدائے حق کی زبان کو بولنے د یں، اگر وردی والے آئینی حدود سے واقف ہیں، تو آزادیء رائے کے قومی علم برداروں کو ان کے آئینی حقوق سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے، جو بولتا ہے اس کی زبان کاٹ دی جاتی ہے جو لکھتا ہے تختِ اسلام آباد پر قابض قومی مجرم ان کی لاش گرا دیتے ہیں، لیکن پاکستان اور دنیا بھر کے قلم دوست کسی بھی ظلم و جبر کے قدموں میں جھکنے وا لے نہیں وہ حق اور سچ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے، جب تک انگلیوں میں قلم ہے وہ لکھتے رہیں گے جب تک منہ میں زبان ہے وہ بولتے رہیں گا، اس لئے کہ!
قلم وہ ہاتھ میں جس کے بھی تیر ہوتا ہے
معاشرے میں وہ زندہ ضمیر ہوتا ہے
رکھے جو سر کو ہتھیلی پہ دیس میں اپنے
وطن سے عشق میں وہ بے نظیر ہوتا ہے