Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fazal Tanha Gharshin
  4. Zubano Ki Taraqi Ka Raaz Aur Culture Days Ka Junoon

Zubano Ki Taraqi Ka Raaz Aur Culture Days Ka Junoon

زبانوں کی ترقی کا راز اور کلچر ڈیز کا جنون

زبانیں سماجی ضروریات کے تحت لاشعوری طور پر وجود میں آتی ہیں اور شعوری طور پر معاشی، سیاسی، سائنسی، مذہبی اور قانونی ضروریات کے لیے بامِ عروج پر پہنچا دی جاتی ہیں۔ زبانیں عام طور پر انسانی رابطوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں، مگر آج کل بین الا قوامی سیاسی اور معاشی تناظر میں زبانوں کو بائیولوجیکل، ہائبرڈ، اور سرد جنگ کی طرح مختلف عالمی مفادات، سازشیں اور وجودی بقا کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔

کسی زبان کی برتری سے مراد ایک خاص تہذیب، کرنسی، طرزِ زندگی اور سوچ کی برتری ہے۔ اور اسی طرح کسی زبان کی تنزلی ایک خاص قوم اور تہذیب و تمدن کی تنزلی ہوتی ہے۔ اس وقت دنیا میں تقریباً 6500 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ 1311 ملین لوگ چینی، 460 ملین لوگ ہسپانوی، 379 ملین لوگ انگریزی، 112 ممالک میں بولی جاتی ہے، اور 341 ملین لوگ ہندی زبان بولتے ہیں۔

جنگ، 21 فروری 2010 کی رپورٹ کے مطابق، دنیا میں صرف 75 زبانیں ایسی ہیں۔ جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زاید ہے۔ صرف 8 زبانیں ایسی ہیں۔ جن کے بولنے والوں کی تعداد 10 کروڑ سے زاید ہے۔ دنیا کی %80 زبانیں صرف 20 ممالک میں بولی جاتی ہیں۔ اور صرف 100 زبانیں تحریری طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ زبانوں کے عروج و زوال کا براہ راست انحصار کسی بھی خطے کی کرنسی، سماجی اتحاد اور فوجی قوت پر ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا کی پسندیدہ ترین کرنسی امریکی ڈالر (% 47) ہے۔ دوسرے نمبر پر یورو ہے۔ جو دنیا کے %30 لوگوں کو پسند ہے اور تیسرے نمبر پر برطانوی پونڈ (%21) ہے۔ جب کہ پاکستانی روپیہ کو صرف %0۰6 لوگ پسند کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں بولی جانے والی زبانیں انگریزی، چینی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور عربی ہیں۔ او آئی سی میں بولی جانے والی زبانیں انگریزی، فرانسیسی اور عربی ہیں۔

اسی طرح نیٹو کی دفتری زبانیں انگریزی اور فرانسیسی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مضبوط اور طاقت ور زبان کے پیچھے مضبوط معیشت اور طاقت ور فوجی قوت کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت دنیا میں زیادہ کتابیں انگریزی، چینی اور جرمن زبان میں چھاپی جاتی ہیں۔ زیادہ اخبارات اور رسائل انگریزی، ہسپانوی اور جرمن زبان میں چھاپے جاتے ہیں۔

زیادہ سے زیادہ نوبل انعامات انگریزی (29)، فرانسیسی (15) اور جرمن (14) زبان بولنے والوں نے حاصل کیے ہیں۔ زیادہ سائنس دان اور سائنسی جرنلز انگریزی، فرانسیسی اور جرمن زبان میں موجود ہیں۔ اسی طرح دنیا کے پہلے بڑے تین سرمایہ دار افراد ایلون مسک اور جیف بیزوس اور برنارڈ آرنلٹ بھی انگریزی اور فرانسیسی زبان بولتے ہیں۔ دنیا کے بڑے سرچ انجنز بھی انگریزی زبان کی ملکیت ہیں۔

کسی بھی زبان کی بقا تخلیق اور مادی حیثیت سے مشروط ہے۔ ایک مستند ادارے سٹریٹیجک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، پاکستان میں پہلے نمبر پر پنجابی (%48)، دوسرے نمبر پر سندھی (%12)، تیسرے نمبر پر اردو اور سرائیکی (%10 ; %10) اور چوتھے نمبر پر پشتو (%8) بولی جاتی ہے۔ پنجابی دنیا میں دسویں اور برصغیر میں تیسری بڑی زبان ہے۔ اردو عالمی سطح پر 19ویں نمبر پر بولی جانے والی زبان ہے۔

جب کہ یورپ اور انڈیا میں 11ویں نمبر پر بولی جانے والی بڑی زبان ہے۔ اردو 49 ملین لوگوں کی پہلی زبان ہے اور 230 ملین لوگ 23 ممالک میں اسے بہ حیثیتِ دوسری زبان "بولی" استعمال کرتے ہیں۔ پاکستانی کرنسی کا دنیا میں 32 واں نمبر ہے۔ پاکستان فوجی قوت کے لحاظ سے 10ویں اور سیاسی نظام کے حوالے سے 105ویں پوزيشن پر ہے۔ پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی کل تعداد 74 ہے۔

جب کہ دفتری امور کے لیے انگریزی اور کثیر اللسان آبادی میں رابطے اور اتحاد کے لیے اردو زبان استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان کے آئین کی 151ویں شق کے مطابق اردو اس ملک کی سرکاری زبان قرار پائی ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کہ زبانی تنازعات پاکستان کے لیے کبھی نیک شگون نہیں رہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہی زبانی تنازعات خوف ناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ مقامی زبانوں کے سیاست زدہ ہونے کی وجہ سے اردو زبان متنازعہ ہوگئی اور نتیجے میں پاکستانیت، پاکستانی تہذیب و تمدن اور پاکستانی ادب کی پہچان اور منصب متعین کرنا محال ہوگیا ہے۔ زبانی تقسیم کے باعث پاکستان میں پاکستانیت ڈھونڈنا مشکل اور صوبائیت کا تعین آسان ہوگیا ہے۔ اگر کسی قوم کا تشخص اس کی زبان سے مشروط ہو تو پھر ہر قیمت پر اس زبان کی حفاظت اور ضروری بن جاتی ہے۔

اردو زبان کو اس حوالے سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر چند اردو پسند افراد کے علاوہ مقامی زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادبا اور لکھاری خاموش رہتے ہیں۔ کیوں کہ پاکستان میں مقامی زبانوں اور ثقافت کے منانے کا ملکی سطح پر اپنا الگ الگ دن ہوتا ہے۔ پنجابی کلچر ڈے 14مارچ، سندھی کلچر ڈے 3 دسمبر، پشتو کلچر ڈے 23 ستمبر اور بلوچی کلچر ڈے 2 مارچ کو منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں تمام مقامی زبانوں سے تعلق رکھنے والا اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقہ انگریزی زبان اور انگریزی تہذیب و تمدن اپنانے کو فوقیت دیتا ہے۔ اس کے برعکس، متوسط طبقہ اردو زبان اور مشرقی تہذیب کو اہمیت دیتا ہے۔ جب کہ غریب، کم پڑھے لکھے اور ناخواندہ طبقہ مقامی زبان اور مقامی ثقافت کے اپنانے میں عافیت سمجھتا ہے۔ ملک کا سرمایہ دار طبقہ نمود و نمایش، ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے۔

سال میں صرف ایک مرتبہ مقامی زبان منانے کی زحمت کرتے ہیں اور پھر اپنی راہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں تین قسم کے نظام تعلیم پائے جاتے ہیں اور یک ساں تعلیمی نظام کی حیثیت بھی متنازع ہوگئی ہے۔ ماہرین زبان کے مطابق، ہر چالیس سے پچاس میل کے بعد زبانیں بولیوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں اور زبانوں سے بولیاں اور بولیوں سے زبانیں جنم لیتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، پاکستان جیسے سطح مرتفع پہاڑی علاقوں پر مشتمل ملک میں زبانی وحدت برقرار رکھنا بہ نسبت میدانی علاقوں پر مشتمل ممالک میں مشکل امر ہوتا ہے۔ سطح مرتفع پہاڑی علاقے، بڑے بڑے دریا اور جزیروں کی بہتات زبان کی ترویج میں رکاوٹ ہوا کرتی ہیں۔ زبانوں کی ترویج کے لیے بعض اوقات "لسانی تطہیر" سے کام لیا جاتا ہے، جو زبانوں کے احیا کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔

سنسکرت کے زوال کا ایک اہم سبب بھی لسانی تطہیر تھا۔ ڈاکٹر سلیم اختر کے مطابق، زبان میں نئے الفاظ کی آمیزش، خون میں سرخ خلیات کی مانند ہوتی ہے۔ جو زبان کے لیے حیات بخش ہوتی ہے۔ اور نئے الفاظ کی زبان میں داخلے کی بندش جامد پانی کی طرح بن کر جوہڑ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ پاکستان میں مقامی زبانوں میں دیگر زبانوں کے الفاظ کی آمیزش کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ زبانوں کی شعوری یا سرکاری طہارت زبانوں کی بقا کے لیے نیگ شگون نہیں رہی ہے۔ علامہ محمد اقبال کے مطابق زندہ زبان انسانی خیالات کے انقلاب کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، اور جب اس میں انقلاب کی صلاحیت نہیں رہتی تو مردہ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اربنائزیشن اور مائگریشن بھی مقامی زبانوں کی نابودیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

زبانیں صرف احتجاج کرنے، دھرنا دینے، ریلیاں نکالنے، ٹائر جلانے، سال میں ایک مرتبہ ثقافتی جشن منانے، شعر و شاعری کرنے یا دوسری زبانوں کے اپنی زبان میں ترجمے کرنے سے قائم و دائم نہیں رہ سکتیں۔ ماہرِ زبان ڈاکٹر اروند کالا کے مطابق، ہر چالیس دن میں ایک زبان اور سالانہ 9 زبانیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اور اس صدی کے اختتام تک 1500 زبانیں معدومیت سے دو چار ہو جائیں گی۔

زبانوں کی معدومیت کے خطرے سے دوچار ہونے کے حوالے سے پاکستان 28 ویں نمبر پر ہے۔ زبانوں کے احیاء کے لیے زبانوں کے بولنے والوں کا سائنس دان ہونا، معاشی طور پر مضبوط ہونا، جدید عصری تقاضوں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہونا، نئی ایجادات کے موجود ہونا، جغرافیائی طور پر متحد رہنا، سیاسی طور پر بالغ نظر ہونا اور سماجی طور پر قوتِ برداشت کا حامل ہونا ضروری ہے۔

ہر زبان زندہ رہ سکتی ہے بہ شرطے کہ اس کے بولنے والے مندرجہ بالا شرائط پر پورا اترے۔ پاکستان میں قومی زبان، اردو کے بولنے والے ہوں یا مقامی زبانوں، پشتو، پنجابی، سندھی اور بلوچی کے بولنے والے ہوں، ان میں سے کون سا طبقہ درجہ بالا شرائط پر پورا اترتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ بغیر کسی تیاری کے اور ہر طرح سے کمزور کسی بھی زبان کے بولنے والے جب اپنی بقا اور اپنے استحکام سے پہلے زبان کی بقا و استحکام کے لیے لڑنے پر اتر آتے ہیں۔

تو زبان اور بولنے والے دونوں معدومیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سو، پہلے خود کو مضبوط بنائیں، زبان خود بہ خود مضبوط بنے گی۔

Check Also

Benazir Bhutto Shaheed Ki Judai Ka Zakham

By Syed Yusuf Raza Gilani