26wi Tarmeem Par Aik Tirchi Nazar
چھبیسویں ترمیم پر ایک ترچھی نظر
20 اور 21 اکتوبر 2024 کو ممکنہ طور پر کل 56 ترامیم میں سے صرف 22 ترامیم پاس ہوگئیں، جو اب 1973 کے آئین میں چھبیسویں ترمیم کے نام سے محفوظ ہیں۔ عوام میں اس ترمیم کے حوالے سے ملا جلا رجحان پایا جاتا ہے، تاہم اکثریت اس ترمیم کو عدلیہ پر حملہ قرار دیتی ہے۔ میں ناچیز بھی اس ترمیم سے خوش نہیں ہوں، مگر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
اس ترمیم میں شق 9 میں سب سے پہلے ہر شہری کو صاف ماحول کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اب پاکستانیوں کو فارس ایگریمنٹ، کوف 29 اور دیگر عالمی ماحولیاتی اداروں میں سر کھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب پاکستان کو قدرتی آفات سے کوئی خطرہ نہیں۔ شق 38 میں 1 جنوری 2028 تک سود کے خاتمے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ہم سب کو بہتر معلوم ہے کہ سود دراصل خدا سے جنگ ہے۔ کم از کم پاکستانی عوام اس گناہ کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔ مذکورہ تاریخ کے بعد ہم IMF سے قرض نہیں، بل کہ خیرات لیں گے اور بنکوں کے ناموں کے ساتھ لمیٹڈ کے بجائے خدمت حسنہ لکھا گا۔ شق 48 میں اس امر کا اعادہ کیا گیا ہے کہ صدر مملکت کو دیے گئے مشوروں یعنی راز و نیاز کی باتوں کو کسی بھی قیمت پر ٹھیس نہیں پہنچے گی، آخر پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
شق 175 اے میں چیف جسٹس کی تعیناتی کا طریقہ کار، سپریم جوڈیشل کونسل کی تشکیل، سپریم کورٹ کے ججوں کی تعیناتی اور سپریم جوڈیشل کونسل کو ہائی کورٹس اور فیڈرل شریعت کورٹ کے ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے مکمل اختیار کو نئی قانونی شکل دی گئی ہے۔ اسی 175 شق کے تحت ججوں کی تقرری کے لیے 12 ارکان پر مشتمل سپریم جوڈیشل کونسل ہوگی۔ اس کار خیر میں حزب اختلاف کی نمائندگی بھی شامل ہے، مگر اپوزیشن کی شرکت کے بغیر بھی یہ کام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے، پہلا تجربہ عینی شاہد ہے۔
شق 177 میں سپریم کورٹ کے جج بننے کے لیے ضابطہ اخلاق بنایا گیا ہے، مگر یہ لکھنا بھول گئے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج کے لیے مسلمان ہونا اور سید ہونا بھی ضروری ہے، مگر ہاں تجوید و دیگر دینی علوم سے آراستہ جج قابل ترجیح ہوگا/گی۔ شق 179 میں چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال قرار پائی ہے۔ یہاں بھی ایک سہو موجود ہے۔ اگر یہ بھی صاف شفاف لکھتے کہ تین سال ضروری نہیں اس میں کمی بیشی بھی ہوسکتی ہے۔
شق 185 کے مطابق اگر کسی کیس کی مالیت اب 50000 کے بجائے دس لاکھ ہو تو سپریم کورٹ ہائی کورٹس کے بنائے گئے دائرہ اختیار کا جائزہ لینے کے لیے اپنے اپیل کے دائرہ اختیار کا استعمال کر سکتی ہے۔ شق 186 اے میں سپریم کورٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ ہائی کورٹس کے معاملات اور کیسز میں چھیڑ چھاڑ کریں۔ اب ہائی کورٹس کے ججوں کے لیے کیسز کو دیکھنے کے بجائے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے تیور کو دیکھنا ہوگا۔ نئی شق 191 اے کے تحت سپریم کورٹ میں آئینی بینچز ہوں گے، تاکہ فلاں موڈ کا کیس فلاں موڈ کے بینچ کے سپرد ہونا ممکن ہوجائے۔ حق دار کو حق پہنچانے کا یہ تیز ترین سروس ہوگا۔ لیکن 184 والے سوموٹو کی عیاشی اب نہیں ہوگی۔ پہلے جوڈیشل ایکٹیویزم کے نام پر اس فاور کو بدنام کیا گیا اور اب ہمیشہ کے لیے دفن بھی کیا گیا اور اسی طرز پر پہلے جسٹس منصور علی شاہ صاحب کو پرو-پی ٹی آئی قرار دیا اور بعد میں چھبیسویں ترمیم کے لیے راستہ ہموار کیا گیا یہ ہوتا ہے کرشمہ۔ منا بدنام ہوا منی تیرے لیے۔
شق 193 میں ہائی کورٹس کے جج بننے کے لیے بڑی کٹھن اہلیت متعارف کرائی ہے اور دوسری جانب شق 199 میں واپس ان کو بھی سوموٹو سے محروم کر دیا ہے، یعنی اپنے کام سے کام رکھنے ہی میں عافیت ہے۔ اسی طرح شق 202 اے میں سپریم کورٹ کے طرز پر ہائی کورٹس میں بھی آئینی بینچز ہوں گے اور یہاں بھی مخصوص موڈ والے کیسز مخصوص موڈ والے بینچز کے سپرد ہوں گے۔ شق 203 سی 3 کے تحت اب فیڈرل شریعت کورٹ کا جج بھی فیڈرل شریعت کورٹ کا چیف جسٹس بن سکتا ہے۔ آخر وہ بھی کسی سے کم تو نہیں ہیں اور اسی طرح 203 ڈی کے تحت فیڈرل شریعت کورٹ کو بھیجے گئے کیسز کو بارہ مہینے یعنی ایک سال کے اندر اندر نمٹانا ضروری ہے۔
عدالتی امور میں جسٹس ڈیلیڈ از جسٹس ڈینائیڈ اور جسٹس ہریڈ از جسٹس بریڈ بھی مشہور ہیں۔ شق 209 میں سپریم جوڈیشل کمیشن کی تشکیل وجود میں آئی ہے جو بہت مختصر ہے اور اس میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز اور ہائی کورٹس کے دو سینئر ججز کا امتحان بھی مقصود ہے۔ اس میں ججوں کی کارکردگی جائزہ لیا جاتا ہے اور ججز کے خلاف مس کنڈکٹ کی سماعت بھی ہوگی۔ ویسے بھی پروموشنز مفت میں نہیں ملتے۔
شق 215 میں قحط الرجال کا ذکر ہے۔ یعنی اگر حکومت کو الیکشن کمیشن میں کمشنر یا کسی ممبر کے ریٹائرمنٹ کے بعد موزوں شخصیت یعنی اپنا بندہ نہیں ملتا، تب تک وہ عہدوں پر بحال رہیں گے۔ مردم شناسی بہت مشکل کام ہے۔ یہ راز کوئی عمران خان سے پوچھے۔
229 اور 230 شقوں میں پارلیمان کی برابر اہمیت اسلامی نظریاتی کونسل کو دی گئی ہے۔ اس شق کے تحت کوئی ایوان یا صوبائی اسمبلی دو بٹا پانچ اکثریت کے بجائے اب ایک بٹا چار اکثریت سے کسی قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل سے جانچنے کی درخواست کرسکتی ہے۔
شق 259 میں نرسنگ کے لفظ کو سائنس، ٹیکنالوجی، طب، فنون یا عوامی خدمت سے تبدیل کرنا حوصلہ افزا ہے۔
چھبیسویں ترمیم کو باحفاظت پاس کرنے کے موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ ترمیم چارٹر آف ڈیموکریسی کا ثمر ہے جو زبردستی سے بھی پاس کیا جاسکتا تھا۔ کیا لیگیسی پائی ہے بی بی اور بھٹو نے۔۔ وہ عروج اور یہ زوال۔ نواز شریف صاحب نے اسی موقع پر 'سچے پیار' نہ ملنے کا شکوہ بھی کیا۔ مولانا فضل الرحمن صاحب نے کالے ناگ کو غیر موثر کا ذکر کیا مگر تفصیل بتانے سے گریز کیا، ورنہ کالا ناگ دوبارہ موثر بھی ہوسکتا تھا یا شاید خفت چھپانے کے لیے کچھ نہ کچھ کہنا بھی ضروری تھا۔
بادی النظر میں یہ ترمیم کم سے کم حکومت وقت اور زیادہ سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں ہے۔ اس ترمیم سے عوام کا چنداں تعلق نہیں ہے، البتہ اپوزیشن کے لیے کالا ناگ ضرور ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ آج کی حکومت کل کی اپوزیشن اور آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہوسکتی ہے۔ جیسا کروگے ویسا بھروگے۔
ایوان بالا اور زیریں میں ستائیسویں ترمیم کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ میری خواہش ہے کہ پاک سر زمین پر یہ ترمیم آخری ترمیم ہو جس میں آئی ایس ایس بی کے طرز پر ایک لیجسلیچرز سلیکشن بورڈ بھی بنایا جائے تاکہ روز روز کے الیکشنز اور ترامیم سے نجات حاصل ہو اور لیجسلیچرز کی تعیناتی بھی میرٹ پر ہوجائے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر پاکستان کو کوئی مائی کا لال بھی ترقی سے نہیں روک سکتا اور نہ ہی دشمن کو اس سرزمین کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات ہوگی۔
آخر میں یہ عرض کردوں کہ چھبیسویں آئینی ترمیم ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہوسکتی ہے، مگر اس ترمیم کا مسودہ کہاں سے آیا؟ اس میں اور کون کون سی شقیں تھیں جن پر اتفاق نہ ہوسکا؟ اور اس ترمیم کو اتنی عجلت میں کس طریقے سے پاس کیا گیا؟ یہ سارا منظرنامہ البتہ مضحکہ خیز ضرور ہے۔