Kitabon Ka Safar
کتابوں کا سفر
میرے نام دستخط شدہ کتاب کسی کو راولپنڈی کے فٹ پاتھ سے ملی ہے۔ جہاں سستے داموں پرانی کتابیں بکتی ہیں۔ کتاب ملتے ہی ناقدری کا طعن ارزاں کر دیا گیا ہے۔ خاکوانی صاحب نے اپنی ایک کتاب بھیجی، جو مجھ تک نہیں پہنچ سکی۔ مہربانی کرکے انہوں نے پھر مجھے دوسری کتاب بھیج دی، جو پہنچ گئی۔ جو پہنچ گئی وہ کتاب میرے پاس رکھی ہے۔ جو نہیں پہنچی، وہ پنڈی کے ایک فٹ پاتھ سے ہوتے ہوئے کسی حق دار کے پاس پہنچ گئی ہے۔ مجھے تو یہ مزے کی سی ایک بات لگی ہے!
تقریباََ چھ برس کراچی کا ایک فنا فی المطالعہ شخص لاپتہ ہوگیا۔ سال بعد لوٹا تو مجھ سے کہا، مجھے آصف بٹ کی کتاب "کئی سولیاں سر راہ تھیں" کہیں سے ڈھونڈ دو۔ میں نے اپنے ہری پور والے زاہد کاظمی صاحب سے گزارش کردی۔ ان کی ذاتی کتابوں کا ذخیرہ چالیس ہزار سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کتاب بھیج تو دی، مگر پہنچی نہیں۔ دوسری پھر کہیں سے ملی نہیں۔ وہی کتاب جو کاظمی صاحب نے بھیجی تھی، وہ کچھ ہفتوں بعد مجھے پنڈی کی اسی فٹ پاتھ سے مل گئی، جہاں سے یہ زیر نظر کتاب ملی ہے۔
کوئی تین برس پہلے جب میں نے گھر بدلا تو تقریباََ چار کاٹن کتابیں گھر سے نکال دیں۔ جو نکالی گئیں، ان کتابوں میں ایک بھی کتاب دستخط شدہ نہیں تھی۔ بلکہ ایسی غیر دستخط شدہ بھی شامل نہیں تھی جو کسی دوست نے بصد شوق بھیجی ہوں۔
دوستوں کا ذکر آیا تو کہتا چلوں کہ میں دوست مصنفین سے کبھی کتاب نہیں مانگتا۔ خود سے کرم کردیں تو ان کی ذرہ نوازی، ورنہ کتاب خود خریدتا ہوں یا پھر آنلائن منگواتا ہوں۔ جو دل کو لگ جائے وہ کتاب پھر آگے پھیلاتا ہوں۔
حسن معراج کی ریل کی سیٹی، کاشف رضا کے ناول چار دوریش اور ایک کھچوا اور اختر رضا سلیمی کے جندر کے ساتھ میرا یہی معاملہ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ احمق ہے وہ انسان جو اپنی کتاب کسی کو دیدے۔ اس سے بھی بڑا احمق ہے وہ انسان جو لی ہوئی کتاب پھر واپس بھی کر دے۔ میرے دوست ہوں یا میں خود ہوں، ہم چھوٹے احمق تو ہمیشہ ثابت ہوئے ہیں، بڑے احمق کبھی ثابت نہیں ہوئے۔
بھائی کتاب خوانی کے حلقے میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کتاب ایسے ہی دست بہ دست سفر کرتی ہے اور کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے۔ گاہے شہر کے سب سے مقدس فٹ پاتھ پر۔
مطالعے کی تہذیب میں پلنے والے لوگ کتاب دیتے وقت ضرور کہتے ہیں کہ کتاب واپس کردینا، مگر واپس مانگتے نہیں ہیں۔ ضرورت پڑنے پر اگر مانگتے بھی ہیں تو دیے ہوئے قرض اور ادھار کی طرح نہیں مانگتے۔ اس تہذیب میں کتاب واپس مانگنے کا سلیقہ بھی کچھ ویسا ہی رچاو مانگتا ہے، جو خاصدان میں رکھا ہوا دادی کے ہاتھ کا لگا ہوا پان کسی قابل احترام شخص کو پیش کرنے کے لیے چاہیے ہوتا ہے۔
یہی تہذیب ہے جس میں بن بتائے اٹھائی ہوئی کتاب کبھی چوری کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ تو میں ان گھریلو کتب خانوں کی بات کررہا ہوں جو زاہد کاظمی، ڈاکٹر ناظر محمود اور عثمان قاضی نے گھروں میں سجائے ہیں۔ ورنہ اسلام آباد میں مسٹر بک کے یوسف صاحب اور کوئٹہ میں گوشہ ادب کے بخاری صاحب تو اہل ذوق کو اپنی دکان سے کتابیں چپ چاپ اٹھاتا دیکھ کر نظریں چرا لیتے تھے۔ کہتے تھے، خیر ہے، کتاب کبھی چوری نہیں ہوتی!
بخاری صاحب نے ہنستے ہوئے مجھے بتایا، میں تو اٹھائی گئی ان کتابوں کا حوالہ علم کے انہی "چوروں" کے مضامین میں دیکھتا ہوں تو بس قیمت وصول ہوجاتی ہے۔۔!
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ کسی کو یہ کتاب فٹ پاتھ والے سستے بازار سے ملی ہے۔ گویا کہ پنڈی کا وہ بازار اب بھی گرم ہے، جس سے مجھے نیر آفاق نے دس برس پہلے متعارف کروایا تھا۔ وہاں کتاب خریدنے کم، ریگل چوک والا ناسٹیلجیا توڑنے زیادہ جاتا تھا۔
جاننے والے ہی جانتے ہیں کہ کتابوں والی ان فٹ پاتھوں کی روایت اور کلچر کیا ہے۔ ان بازاروں میں پہلی بار ایک دوسرے سے متعارف ہونے والے دوستوں کا باہمی رشتہ کیا ہوتا ہے۔ ان اساتذہ کا مقام کیا ہوتا ہے جنہیں پہلی بار یہاں دیکھا اور جانا ہوتا ہے۔
کتاب ہر جگہ سے مل جاتی ہے، مگر نادر و نایاب کتاب یا تو کسی دوست کے کتب خانے سے ملتی ہے یا پھر انہی فٹ پاتھوں سے ملتی ہیں۔ کتنی نایاب کتابیں ہیں جو اجمل کمال، آصف فرخی اور صلاح الدین غازی جیسے عبقری لوگوں کے ہاتھوں لگیں اور پھر اس پر مضامین ہوئے۔
ایک میگزین فیچر کا میں اکثر ذکرتا ہوں جو "حواشی مولانا ابولکلام آزاد" نامی ایک کتاب پر شائع ہوا تھا۔ یہ نایاب کتاب سید کاشف رضا نے ریگل چوک کے فٹ پاتھ سے شاید پندرہ روپے میں خریدی تھی۔
میں نے فوراََ کاشف رضا سے رابطہ کیا کہ یہ کتاب مجھے چاہیے۔ مگر فوراََ سے بھی پیشتر لاہور کا کوئی چیتا کاشف کے پاس پہنچ گیا تھا۔ کاشف کے ہاتھ سے کتاب جاچکی تھی۔
ایک بار واحد بلوچ کو لیاری میں اپنے گھر کے چبوترے کے پاس پھٹے پرانے کاغذات پر کام کرتے دیکھا۔ پوچھنے پر بتایا، یہ میر یوسف عزیز مگسی کے کچھ خطوط ہیں جو مجھے فٹ پاتھ سے ملے ہیں۔ تین دن سے انہیں جوڑنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
کتنی ایسی کتابیں ہمیں ملیں جو کسی بڑے مصنف نے کسی بڑے انسان کے نام بھیجی تھی، مگر فٹ پاتھ پر وہ اپنے ہاتھوں میں دیکھی تو خوشی سے نہال ہوگئے۔
غالباََ مبشر زیدی نے کبھی ایسی ہی دستخط شدہ چار پانچ کتابوں کا حوالہ دیا تھا جو انہیں ریگل چوک سے ہی ملی تھیں۔ بہت پہلے مجھے ابن انشاء کی ایک خستہ سی کتاب ملی، جو شاید اخبار جہاں میں لکھے چند مضامین کا مجموعہ تھا واللہ اعلم۔ فوری دلچسپی اس لیے ہوئی کہ یہ کتاب ابن انشاء نے عینی آپا کے نام دستخط کی ہوئی ہوتھی۔
جب دستخط ہوئی تھی تب عینی آپا لندن میں ہوں گی یا انڈیا میں اور ابن انشاء لاہور میں۔ یا ممکن ہے دونوں بیک وقت لندن میں ہوں۔ جب مجھے کتاب ملی تب تو دونوں ہی دنیا میں نہیں تھے۔ مگر یہ کتاب کراچی ریگل چوک کے فٹ پاتھ پر کیا کر رہی تھی؟ کتابیں آوارہ ہوتی ہیں۔ میرے پاس سے یہ کتاب اردو کے ایک فرانسیسی رائٹر کے پاس چلی گئی تھی، اب پتہ نہیں کہاں ہوگی!
واحد بلوچ پھر سے یاد آگئے۔ واحد بلوچ لیاری کے آغا خان سوئم ہیں۔ بچیوں کو پڑھانے پر بہت زور دیتے ہیں۔ ان کے گھر میں کمرے کی دیوار کم ہی نظر نہیں آتی ہے۔ کتابوں کے پیچھے چھپی ہوتی تھی۔ سول اسپتال نوکری کے لیے پیدل آتے جاتے تھے۔ کرائے کے پیسے بچا کر ریگل چوک جاتے تھے۔ کتابیں خریدتے تھے اور لیاری کے نادار بچوں بچیوں کو پڑھاتے تھے۔
صبا حسن دشتیاری نے ملیر میں کتب خانہ کھولنے کا فیصلہ کیا تو دوستوں سے کتابیں مانگیں۔ واحد بلوچ نے تقریباََ چھ ہزار نایاب و نادر کتابیں انہیں دان کر دیں۔ ان میں اکثر کتابیں وہ تھیں جو انہوں نے فٹ پاتھ سے خریدی تھیں۔
وقت گزر گیا، دشتیاری صاحب بھی گزر گئے۔ جو کتابیں واحد بلوچ نے ملیر کتب خانے کے لیے دی تھیں، انہی کتابوں میں سے کچھ کتابیں انہیں ریگل چوک اور بسم اللہ ہوٹل پر دوبارہ نظر آگئیں۔
یعنی جو کتابیں فٹ پاتھ سے خرید کر انہوں نے دان کی تھیں وہی کتابیں اسی فٹ پاتھ سے دوبارہ خریدیں۔
کیسی کہانی ہے!
یہ کہانی انہوں نے بہت ہنس ہنس کر سنائی۔ کتابوں کے اس ڈھیر میں سے تین کتابیں میں نے ان سے لے لیں۔
ایک تو اس لیے کہ یہ کتابیں بذات خود ایک کہانی ہیں۔ دوسرے، صبا حسن دشتیاری جیسے مزاحمت کار عالم سے ان کتابوں کو نسبت ہے۔