Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Fakhar Alam Qureshi
  4. Firqa Warana Siasat Ka Khatma

Firqa Warana Siasat Ka Khatma

فرقہ وارانہ سیاست کا خاتمہ

فرقہ وارانہ سیاست کا استیصال ایک ناگزیر امر ہے، خصوصاً گلگت بلتستان جیسے حساس خطے میں، جہاں مختلف مسالک کے افراد بستے ہیں۔ ماضی کے تلخ تجربات نے یہ حقیقت آشکار کی ہے کہ جہاں فرقہ وارانہ تشدد نے اس خطے کی تعمیر و ترقی کی راہ میں سنگ گراں بن کر حائل ہوا، وہیں ان سیاستدانوں نے اس آگ کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے بھڑکایا ہے۔

یہ امر باعث طمانیت ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں گلگت بلتستان کے دانشمند نوجوانوں اور سول سوسائٹی نے فرقہ پرستی کے خلاف علم بلند کیا ہے، اور امن و استحکام کی فضا قائم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ تاہم، اس بات کی تفہیم ضروری ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد کے تدارک کے لیے صرف مذہبی انتہاپسندی کا مقابلہ کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان عیار سیاستدانوں کی چالبازیوں کو بھی بے نقاب کرنا ہوگا۔

فرقہ پرست سیاستدان ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہیں۔ یہ افراد اپنے سیاسی مفادات کے لیے عوام کو مذہبی فرقوں میں تقسیم کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ تشدد کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے فروغ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی سازشیں گلگت بلتستان کے نوجوانوں کے مستقبل کو تاریک بنا رہی ہیں۔ جب تک ہم ان سیاستدانوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل نہیں کریں گے، اس خطے کی تعمیر و ترقی کا خواب کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا۔

گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ میں حافظ حفیظ الرحمن اور امجد ایڈووکیٹ جیسے سیاستدانوں کی مثالیں اس بات کا اشارہ ہیں کہ آخر کب تک یہ لوگ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر عوام کو فریب دیتے رہیں گے؟ یہ سیاستدان اپنے اپنے مسلک کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرتے ہیں اور فرقہ وارانہ سیاست کو فروغ دے کر اپنی کرسی کو مستحکم کرتے ہیں۔ عوام کے مذہبی جذبات کا استحصال ان کا وطیرہ بن چکا ہے، اور اسی بنیاد پر یہ اپنی سیاسی بساط بچھاتے ہیں۔

فرقہ وارانہ سیاست نہ صرف سماجی انتشار کو فروغ دیتی ہے بلکہ اس خطے کی سیاسی ساخت کو بھی دیمک کی مانند چاٹ رہی ہے۔ اس سیاست کا استیصال کرنے کے لیے ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کے باشعور نوجوان، جو امن کے پیامبر ہیں، اس مکارانہ کھیل کو سمجھیں اور اس کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔

فرقہ واریت کا کھیل ہمیشہ سے طاقتور لوگوں کے ہاتھوں کا کھلونا رہا ہے، جو اپنی مرضی سے عوام کو مذہبی اختلافات میں الجھاتے ہیں اور شام کو آپس میں بیٹھ کر قہوہ نوشی کرتے ہیں۔ اس کھیل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بے گناہ عوام اس جنگ میں پِس کر رہ جاتے ہیں، اور ان کے خواب چکنا چور ہو جاتے ہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو اپنے مستقبل کی فکر کرنی چاہیے اور ان سیاستدانوں کا احتساب کرنا چاہیے جو مذہب کا استعمال کرکے اپنے مفادات حاصل کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ فرقہ وارانہ سیاست کے حصار سے نکل کر ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو عوامی خدمت کو اپنی اولین ترجیح بنائے، نہ کہ مذہبی منافرت کو۔

فرقہ وارانہ سیاست کے استیصال کے لیے صرف نوجوانوں کا شعور بیدار کرنا کافی نہیں بلکہ ایک منظم تحریک کی ضرورت ہے جو ان سیاستدانوں کو بے نقاب کرے اور عوام کو ان کے حقیقی چہروں سے روشناس کرائے۔ عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ فرقہ پرست مولوی اور فرقہ پرست سیاستدان دونوں ہی معاشرتی ہم آہنگی کے دشمن ہیں۔

اگر گلگت بلتستان کے عوام فرقہ وارانہ تشدد کا مستقل قلع قمع چاہتے ہیں، تو انہیں سیاسی اور سماجی سطح پر ان عناصر کا مقابلہ کرنا ہوگا جو فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہیں۔ یہ مقابلہ صرف سیاسی شعور اور اجتماعی حکمت عملی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

آخر میں، میں اس امر پر زور دینا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو ایک نئی قیادت کی ضرورت ہے، جو مذہبی تعصبات سے بالاتر ہو کر اس خطے کی تعمیر و ترقی کے لیے کام کرے۔ فرقہ وارانہ سیاست کے استیصال کے بغیر یہ خطہ کبھی بھی امن اور خوشحالی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتا۔ عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں اور ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو خدمت اور قومی وحدت پر یقین رکھتی ہو۔ اس عمل کے ذریعے ہی ہم فرقہ وارانہ سیاست کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور گلگت بلتستان کو ایک پرامن اور ترقی یافتہ خطہ بنا سکتے ہیں۔

Check Also

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

By Hameed Ullah Bhatti