Zaaid Ul Meead Siasat Apne Mantaqi Anjam Ko Pohanch Chuki
زائد المعیاد سیاست اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی

پیشگی معزرت کے ساتھ، ریڈ لائین اب زنگ آلود اور اس کے خبط میں مبتلا احمقوں کی جنت میں رہنے والے عنقریب حواس کھونے والے ہیں کیونکہ سیاسی تماشوں کا دور ماضی بن چکا، زائد المعیاد سیاست اپنے انجام کو پہنچ چکی اور تماشہ لگانے کی ان میں جرات اور صلاحیت نہیں۔ بینڈ باجے اور رَقص کی محفلیں اب سپنوں میں بھی ممکن نہیں رہیں۔ وہ وی لاگرز جن کو ایجنسیوں کی لیک خبروں کی گیدڑ سنگھی کو مختلف جھوٹ، مبالغہ آرائی اور بد اخلاقی کے فلیورز دے کر یوتھیوں کو بے وقوف بنانے کی لت لگی ہوئی تھی اب اپنے ہی ضمیر سے چھپتے پھر رہے ہیں اور جھوٹے دعووں والی خبروں اور تجزیوں کی عالمی سازشی پروجیکشن کے چسکوٹے اب بین الاقوامی جھوٹے ثابت ہونے پر سَکتے میں ہیں۔
اندرونی خبریں دینے والے خاموش مجاہدوں کے سپوک پرسن اب اپنی تقدیر کو کوس رہے ہیں کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں پر بھاری بھر کم ڈیفیمیشن ہرجانے کی رقمیں کہاں سے دیں گے اور اوپر سے مجرموں کے تبادلے پر حکومتی کوششوں نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہوئی ہیں۔
وہ یقین دہانیاں جو اگلے تیس سال تک حکومت کرنے کے بھاشن دیتی تھیں اب اپنے مکافات عمل کی انہونیوں کے شکنجے میں سر پکڑ کی بیٹھی ہوئی ہیں لہذا اب یہ سیاست زائد المعیاد ہو چکی ہے جب اس کے ہدائت کار ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں جن کی سہولتکاری پر اس کی بنیاد تھی وہ کیسے چل سکتی ہے؟ بانی پی ٹی آئی نے جو راستہ چنا تھا اس کی منزل انہوں نے پا لی ہے۔ سادہ عوام تو اس دھوکہ بازی کی سیاست کو نہ سمجھ سکے مگر فطرت نے اس کو آہنی ہاتھو دبوچ لیا۔ جو سٹیٹس کو کو ختم کرنے کا نعرہ لگاتے تھے انہوں نے ایک نئے سٹیٹس کو کی بنیاد رکھ دی۔
پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت اب مقبولیت کا بخار اترنے اور مناسب اصطبلوں کی تلاش میں بے چین سر پٹخ رہی ہے کہ اب ان کی قیمت تو کوئی رہی نہیں اور کسی اصطبل میں داخلے کا ان کے پاس پروانہ بھی نہیں۔ اب مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں مگر کوئی ان کو گھاس ڈالنے کے لئے بھی تیار نہیں۔ سارے بھگوڑے انقلابی کے پی کو اپنی پناہ بنائے ہوئے تھے مگر اب گورنر راج کا طوفانی بیان ان کے اعصاب پر اس طرح سوار ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
ہر کوئی بانی پی ٹی آئی کو سیاسی بے وقوف سمجھتا ہے مگر کہنے کی ہمت نہیں اور نہ ہی ان کی کوئی سنتا ہے۔ ہر کوئی اب معجزوں کی امید پر ہے مگر جادو ٹونوں والے اپنی ہی عملوں کی گرفت میں گمنام ہو چکے ہیں۔
وہ جو کبھی سونامی بن کر دھاڑتا تھا اب پانی کے بلبلے کی طرح اپنا وجود کھو چکا ہے اور اس کی باقیات اپنا نام و نشان مٹانے کے لئے بے چین رحموں اور چندوں کی اپیلوں کے مواقعوں میں مارے مارے پھر رہی ہیں۔ پہلے ممبران پارلیمان کو ٹکٹ بیچتے رہے اور اب تنخواہ کا دس فیصد دینے کے خطوط جاری ہو چکے ہیں جبکہ لوگ جرائم اور سزاؤں کے خوف سے جماعت سے دور بھاگ رہے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی عالمی سطح پر پزیرائی کی بد ہضمی پر مجھے اس ایروگینٹ طبقہ سے تعلق رکھنے والوں سے ہمدردی بھی ہے مگر ان کی ہٹ دھرمی پر افسوس بھی ہےکہ وہ اچھا کام کسی سے ہوتا ہوا برداشت اور خود کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جو ان کی غیر شعوری مقبولیت کی طرف دلالت ہے۔
حکومتی سرپرستی میں بد اخلاقی اور بد تہذیبی کی تربیت اب ناموافق ماحول میں سب سے بڑی پریشانی اور مشکلات کا سبب بن رہی ہے اور شائستہ اور مہذب زبان کو وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔
حیرت تو اس پر ہے کہ اب جمہوریت اور اظہار رائے کے حق کے بھاشن دینے والوں کو آئنیہ دیکھ کر بھی اپنے آپ کو پہچاننے کی استعداد نہیں ہے پھر کوئی کہے یا کرے بھی تو کیا؟
فقط نعرے لگانے اور سہولتکاریوں کے بیوپار کرنے سے سیاست نہیں آجاتی اور نہ ہی قیادت کرنے والوں میں اس طرح کی نا پختیاں ہوتی ہیں۔ سیاست تماشے کا نام نہیں بلکہ خدمت اور ذمہ داریوں کا نام ہے جو محنت، لگن، جزبے اور اخلاص سے مشروط ہے۔
میں اس طرح کے انداز اور لہجے پر یقین نہیں رکھتا مگر اس بد اخلاقی اور بد تہذیبی سے ہماری معاشرت کو پہنچنے والے نا قابل تلافی نقصان سے دل جب کڑھتا ہے تو الفاظ کا سہارا لے کر اپنا بوجھ ہلکا کر لیتا ہوں اور جب بے حسی کی شکار سوچوں کی اصلاح بارے مایوسیوں کے گناہوں کا احساس ہوتا ہے تو ان الفاظوں کو پبلش کرکے بہتری کی کوشوں کے سہارے تلاش کرنا مقصود ہوتا ہے۔
سادہ اور بھولے عوام جو ان وی لاگز کو آسمانی صحیفے سمجھتے تھے ان سے گزارش ہے کہ اب سیاسی سراب سے نکلیں آنکھیں کھولیں اور ہر طرف چہکتی مہکتی ترقی و خوشحالی کی خدائی نعمتوں پر اللہ کا شکر اد ا کریں اور اس کو ممکن بنانے والوں کی داد رسی کریں دن کا بھولا اگر شام کو لوٹ آئے تو اس کو برا بھلا کوئی نہیں کہتا مگر ضد سے اپنی اور اپنی نسلوں کے مستقبل کو تاریک بنانے کی غلطیوں سے سبق سیکھنا اس خوشحالی کی استقامت کے لئے ضروری ہے۔ ترقی کو منہ چڑھانے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔

