Tehqeeqat Ke Baghair Chutkara Mumkin Nahi
تحقیقات کے بغیر چھٹکارہ ممکن نہیں
یوں تو انتخابات کو انعقاد سے پہلے ہی متنازع بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا تھا جس کے بارے میں اپنی تحریروں میں اظہار بھی کرتا رہا ہوں اور جس سیاسی منظرنامے کے خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اب وہ دھاندلی کے الزامات کی صورت میں حکومت کی تشکیل کے سامنے ایک چیلنج بن کر کھڑا دکھائی دے رہا ہے۔
جن انکشافات کا اظہار آج کمشنر راولپنڈی نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کیا ہے جب تک ان کی انکوائری رپورٹ نہیں آتی انتخابات کی شفافیت کو نہیں منوایا جاسکتا۔ اگر دیکھا جائے تو اس وقت اکثریتی سیاسی جماعتوں کا اسی طرح کا موقف سامنے آرہا ہے جس پر احتجاج اور ریلیوں کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے جو ملک کو پھر سے سیاسی عدم استحکام کی صورتحال سے دوچار کرتا جا رہا ہے اور اس کے نہ صرف امن عامہ بلکہ معیشت پر بھی منفی اثرات پڑنے شروع ہوگئے ہیں۔
کمشنر کے معاملے پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے جو خوش آئیند ہے لیکن بہتر ہوگا کہ اب اس معاملے پر الیکشن کمیشن یا وفاقی حکومت تحقیقاتی عمل کی شروعات کرے۔ اچھی شہرت اور کارکردگی کے حامل افسران جن پر سب سیاسی جماعتوں کو اتفاق ہو کا انکوائری کمیشن بنایا جائے جو غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ ان تمام الزامات کی انکوائری کرے جو مختلف امیدواران اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے لگائے جارہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ جھوٹ ہے جس طرح سے انہوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے توانکوائری شروع ہو اور ان سے ثبوت طلب کرکے یہ سیاسی بیانیوں اور اداروں پر الزام تراشیوں والا عمل ختم ہو۔ الزامات کی تحقیقات کے بغیر ان سے جان چھوٹنے والی نہیں وگرنہ یہ سلسلہ یوں ہی پانچ سال چلتا رہے گا۔
اگر تو ان کے پاس الزامات کے حق میں ثبوت ہیں تو انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے بعد جن جن حلقوں میں دھاندلی کے شواہد ملتے ہیں ان میں دوبارہ سے انتخابات کا انتظام کیا جائے اور ملک کے نظام کو چلنے دیا جائے۔ اگر بروقت ایکشن نہ لیا گیا تو ملکی صورتحال دن بدن مزید تشویشناک ہوتی چلی جائے گی۔
اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کو بھی سنجیدگی اور پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہیے اور اگر ان کے پاس ٹھوس شواہد ہیں تو پھر متعلقہ فورمز کے سامنے رکھے جائیں چہ جائے کہ الزامات کی آڑ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ملک کے اندر افراتفری کا ماحول پیدا کرکے ترقیاتی، فلاحی اور معاشی نظام کو مفلوج کر دیا جائے یہ کون سی سیاست، خدمت اور جمہوریت ہے۔ جیسے کسی بھی شعبے کی کامیابی کا ضامن اس کا نظم ضبط بھی ہوتا ہے ایسے ہی سیاست کے بھی اصول ہوتے ہیں، جمہوری روایات ہوتی ہیں۔
انتخابات کے بعد تو سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی حکمت عملیاں بالکل بھی زیب نہیں دیتیں۔ عوام اپنے نمائندوں کا چناؤ کر چکی ہے۔ تمام جماعتوں کے جتنے ممبران جیتے ہیں ان پر تو کم از کم خود ان جماعتوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا وہ آئینی حلف اٹھائیں اور موجودہ کامیاب ممبران اسمبلی کے تناسب سے جس کی بھی حکومت بنتی ہے اسے تشکیل دیں اور پارلیمان خود انکوائری کمیشن ایکٹ 2017 کے تحت کمیشن قائم کرے۔ یہ چوک چوراہے کی سیاست کے پچھلے دس سالوں سے ابھی ان سیاستدانوں کے شوق پورے نہیں ہوئے۔ ان سے سیاسی جماعتوں یا ملک کو حاصل کیا ہوا ہے بجائے معاشی، سیاسی اور معاشرتی تباہی کے۔ جنہوں نے اس طرح کی سیاست پر امیدیں وابستہ کی ہوئی تھیں ان کو ابھی تک اس سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ نہیں ہوا کہ پھر سے وہی روش اپنا لی ہے۔
انتخابات کے انعقاد تک تو ان احتجاجوں کی سمجھ آتی ہے لیکں اسمبلیوں کے وجود میں آجانے کے بعد تو سیاستدانوں کو اپنے تمام معاملات کا حل پارلیمان میں تلاش کرنا چاہیے اور عوام کو ان کی نگرانی کرنی چاہیے۔ اگر وہ عوامی فلاح و بہبود، آئین و قانون کی پاسداری اور اصولی سیاست اور جمہوری اقدار سے ہٹ کر کوئی کردار ادا کرتے ہیں توعوام کو ان کا محاصرہ کرنا چاہیے اس کے لئے عوام کو نکلنا بھی پڑے تو ان کا جائز عمل، قومی فریضہ اور آئینی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ پی ٹی آئی کے منتخب ممبران کا انہوں نے جماعتی مینڈیٹ کے خلاف استعمال ہونے پر اپنے ممبران کا محاسبہ کیا ہے وہ ان کا جائز حق تھا اور اس سے سیاسی شعور اور جمہوری اقدار کی پاسداری کی نشاندہی ہوتی ہے جس سے سیاست میں ہارس ٹریڈنگ کا قلعہ قمع ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ان کی نمائندگی پارلیمان میں اپنا کردار ہی ادا نہ کر رہی ہو تو ان دھرنوں اور احتجاجوں کے مطلوبہ ثمرات ملنا ممکن نہیں ہوتے۔
بلکہ ایسی سرگرمیاں عوام، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے اندر ان کی پارلیمانی ذمہ داریوں سے لا علمی، آئینی و قانونی، سیاسی اصولوں اور جمہوری اقدار والی تربیت اور صلاحیتوں کی کمی کی نشاندہی کی طرف اشارہ ہے۔ سیاستدان خواہ ان کا کسی بھی جماعت سے تعلق ہو ان کا جتنا بھی دوسرے ممبران یا جماعت سے سیاسی اختلاف ہو مگر قومی ایشوز پر ان کا اتفاق اور اتحاد ان کے سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات کی پہچان ہے جو ان کے بحیثیت ایک سیاستدان کے غیر تحریر شدہ نظم و ضبط جس کی پاسداری ان کا آئینی، سیاسی، جمہوری اور اخلاقی فریضہ ہے جو قوموں کے جمہوریت سے فائدہ مند ہونے کا ضامن ہوتا ہے۔
اداروں کے اگر سیاست میں دخل اندازی کا کسی سیاستدان کو شکوہ، خدشہ یا تحفظ ہے تو پھر اس کی ان کی سوچ و عمل میں جھلک بھی تو ہونی چاہیے تاکہ اس کی بحثیت ایک سیاستدان شناخت اور شخصیت پر کسی کو انگلی اٹھانے کا موقعہ نہ ملے اور اگر کوئی بھی سیاستدان یا سیاسی جماعت کسی بھی ایسی دخل اندازی کے عمل کا آلہ کار بنے یا سہولتکاری سے مستفید ہو تو وہ سیاستدان اور سیاسی جماعت بھی سیاست اور جمہوریت کے نام پر دھبہ ہے جس پر غیر آئینی و غیر قانونی عمل کا حصہ بننے کا الزام لگا ہو۔
کوئی بھی ہو اگر آج وہ ماضی کے ایسے واقعات پر استدلال کرتے ہوئے حال میں خدشات یا الزامات کی نشاندہی کرتا ہے تو جن پر وہ استدلال کر رہا ہے ان واقعات میں ثابت شدہ جرائم پر اگر وہ خود ملوث تھا تو کیا اس نے پہلے قوم سے اپنے جرائم کی معافی مانگ کر آئندہ دور رہنے کا اعادہ کیا ہے؟ اور اگر نہیں کیا تو اس کو کیا زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھائے؟
آج جو 1970 کے حوالے دیتے ہیں ان کو 2018 یا کئی دوسرے انتخابات نظر نہیں آتے۔ کیا ان سابقہ یا 2018 میں مستفید ہونے والوں نے شرمندگی کا کوئی اظہار کیا ہے یا ان کا طرز سیاست پہلے سے بدلا ہے یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہمیں دعوؤں اور دوسروں پر الزامات لگانے سے پہلے اپنے سوچ و عمل میں تلاش کرنا ہے۔
جس طرح سے کل تحریک انصاف نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں عالمی میڈیا کانفرنس میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے عالمی برادری سے مداخلت اور دباؤ کی درخواست کی ہے اس میں چھپی منطق میری تو سمجھ سے باہر ہے بجائے اس کے کہ ریاست اور اداروں کی ساکھ بارے منفی تاثرات مرتب کرکے قومی تشخص کو تباہ کر دیا جائے۔ پہلے بھی اسی طرح کے حربوں نے ہی عالمی سطح پر سفارتی اور تجارتی تعلقات کو خراب کرکے ملک کو مسائل سے دوچار کیا ہے۔ اگر سیاستداں اپنے اندر اتفاق پیدا کرکے اپنے مسائل کا حل خود پارلیمان جس کی بالادستی کا آئین ضامن ہے سے نہیں ڈھونڈھ سکتے تو باہر سے ان کی کوئی کیا مدد کرے گا۔
سیاسی جماعتوں کو اگر پارلیمان میں پہنچنے سے پہلے تک بھی کوئی حکمت عملی اپنانی ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر آئینی و قانونی طریقہ کار کو اپنائے جو الیکشن کمیشن، اس کے بعد الیکشن ٹربیونلز اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ پہلے بھی سپریم کورٹ نے ہی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا تھا جب ہر طرف سے تعطل کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
جیسا کہ ایک ریٹائرڈ فوجی آفیسر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے کالعدم قرار دے کر 30 دنوں کے اندر عدلیہ کی نگرانی میں دوبارہ انتخابات کروانے کی استدعا کی گئی ہے جو سماعت کے لئے 19 فروری کے لئے لگا بھی دیا گیا ہے۔ جس میں تین رکنی بنچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان کریں گے۔ ایسی تمام سیاسی جماعتیں جن کے پاس انتخابات میں دھاندلی کے شواہد موجود ہیں ان کو بھی اس پٹیشن میں پارٹی بن کر عدالت کو اپنے تحفظات اور آئینی و قانونی حل کی راہ میں حائل مشکلات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
سپریم کورٹ کو اگر قائل کر دیا جائے کہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے تو وہ بھی اس معاملے پر الیکشن کمیشن اور حکومت کو سننے کے بعد کسی ایک کو اس پر انکوائری کروانے کی ہدایات جاری کر سکتے ہیں۔ لیکن سیاستدانوں کی طرف سے اس طرح سے احتجاج، ریلیوں اور دھرنوں کی حکمت عملی میری سمجھ سے باہر ہے جن میں آئینی و قانونی پہلوؤں اور پارلیمانی طرز سیاست کی ترجیح شامل نہ ہو اور اسے نا پختہ اور غیر سنجیدہ سیاست کے علاوہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔