Sawalia Nishan?
سوالیہ نشان؟

ایک ادارے کے ذمہ دار عہدیدار کا ایک قیدی کی سرگرمیوں پر یوں کانفرنس کرنا کوئی عام بات نہیں بلکہ یہ ایک سوالیہ نشان ہے ریاست کی گورننس پر، ملکی انداز سیاست پر اور وزارتوں کی کارکردگی پر کہ ایک سابق وزیراعظم جس کی پروفائل بذات خود ایک کھلی کتاب ہے عسکری ادارے کے سربراہ پر کھلے عام الزامات لگا رہا ہےکہ ملک میں اس کی پالیسیاں چلتی ہیں جو آئین پاکستان کے نفاذ پر ایک سوال ہے۔ کیا ریاست کے وزیر اعظم کے پاس نام کا عہدہ ہوتا ہے؟
ذہنی مریض ہی سہی، قید میں ہی سہی آخر سابق وزیر اعظم بھی تو ہے اس سے وضاحت ہی طلب کر لی جائے کہ وہ یہ سب کچھ اپنے تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہے یا کرسی چلے جانے کا دکھ پِٹ رہا ہے۔ اگر واقعی سچ ہے تو پھر وہ اس وقت خاموش کیوں تھا جب کہیں اور بنائی گئی پالیساں اس کے نام سے نافذ ہوتی تھیں؟
سوال ہے اس نظام جمہوریت پر، اس نظام پر یا اس بندوبست پر جس سے ایک ذہنی مریض بغیر سائیکالوجیکل انیلیسس کے وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچ جاتا ہے اور پھر قومی سطح کے میڈیا پر اس کے نام کے ڈنکے بجائے جاتے ہیں۔ سادہ معصوم ذہنوں پر ملک و قوم کے مستقبل بارے کشیدہ کاری کروائی جاتی ہے۔ عوام کو اس کے واحد نجات دہندہ ہونے کے یقین دلوائے جاتے ہیں۔ امت مسلمہ کا لیڈر ہونے کے نکارے بجائے جاتے ہیں۔
اس وقت کے بچے اب جوان ہو چکے ہیں۔ نوجوان فیملی کے سربراہ اور اس وقت کے سربراہ قبیلوں کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ دہائیوں پر محیط محنت سے بنائے گئے اس یقین کو یکدم ختم کر دیا جائے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہےکہ اس کی پیشکش اور ہدایت کاری کہاں سے ہوتی رہی؟ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا تبدیلی کا نعرہ سب جھوٹ تھا تو اس کے شواہد عوام کو کیوں نہیں دکھائے جاتے؟
عوامی شعور کو بے راہ روی کا شکار کیا گیا اب اگر اس شعور کو گناہگار ٹھہرایا جا رہا ہے تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس میں شریک جرم ریاست کی مقتدرہ کو معصوم اور بے قصور کیسے سمجھ لیا جائے؟ ایک قیدی کو سیاست کرنے کی اتنی آزادی کہ اس کے الزامات سوشل میڈیا تک پہنچ کر عوام کے عادی ذہنوں تک پہنچ جاتے ہیں بذات خود ایک سوال ہے؟
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان الزامات پر تحقیقات کیوں نہیں ہو پا رہیں؟ آئین اور قانون خاموش کیوں ہے؟ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کیا ایسے جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کو روکنے کی سکت نہیں رکھتی؟ اے آئی کی مدد سےکوئی ایسا سافٹ وئیر ٹول نہیں بنا سکتی جو جھوٹ کی نشاندہی کرتے ہوئے عوام کو بر وقت حقائق سے آگاہ کرکے عوامی شعور کو درست سمت دے سکے۔
وہ ریاست جو دشمن کے دفاعی نظام کو مفلوج کرکے چند گھنٹوں میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہے وہ ایک قیدی کے پراپیگنڈے پر تحقیق یا اس کو روکنے پر اتنی بے بس کیوں ہے جس کو عسکری ادارہ ملکی امن کے لئے خطرہ سمجھتا ہو اس پر ریاست کی گورننس خاموش کیوں ہے؟ کیا وہ مکافات عمل کے سامنے بند باندھنے سے قاصر ہے یا نتائج کی خوشی کی مستی میں۔
بہرحال سوال اپنی جگہ مگر اس کانفرنس کا سنجیدہ پہلو یہ بھی ہے کہ ایمپائر کی انگلیوں کے اشاروں پر سیاست کرنے والوں کو اب حقائق کو سمجھتے ہوئے اپنا ذہن درست کر لینا چاہیےکیونکہ اس بار انگلی کی جگہ ڈنڈا ہے اور اب یہ سیاسی توجیہات کہ وہ فوج کے خلاف نہیں بلکہ کسی شخصیت کے خلاف ہیں یا فوج کے سیاست میں کردار کے خلاف ہیں نہیں چلیں گی۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے خلاف لب کشائی کا جواب فوج کے ترجمان کی زبان سے سن کر تمام غلط فہمیاں دور ہو جانی چاہیں کہ فوج کے سربراہ کے احترام پر ادارے نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور اس کا حکم ہی فوج کا عمل ہوتا ہے۔

