Imran Khan Apna Mamla Allah Par Chor Dein
عمران خان اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں
اس وقت پاکستانی سیاست عجب تذبذب کا شکار ہے۔ انتخابات کیا نتائج لائیں گے وہ 8 فروری کو واضح ہو جائے گا مگر جو تاثرات بنائے جارہے ہیں ان سے اچھی توقعات کو وابستہ کرنا آسان نہیں لگ رہا اور نہ ہی انتخابات پر ان کے منفی اثرات سے انکار کیا جاسکتا ہے۔
عمران خان اور ان کے ہمدرد یہ بیانیہ بنانے میں کامیاب دکھائی دے رہے ہیں کہ نواز شریف کی سہولتکاری ہو رہی ہے جس کا استدلال 2018 کے انتخابات پر کیا جارہا ہے جس کے متعلق حتمی رائے تو انتخابات کے بعد ہی قائم کی جا سکے گی کہ اس کے ریاست اور سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں مگر اس کے اندر 2018 کے انتخابات میں ہونے والے کھلواڑ کا اعتراف ضرور جھلک رہا ہے جس سے ان تجزیہ کاروں کے ماضی کے تبصروں کی منافقت بھی عیاں ہورہی ہے جن میں وہ مثبت رائے بنانے کی کوششوں کا حصہ رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں اس وقت عمران خاں کی طرف سے جو ریاست کے تمام اداروں پر مکمل عدم اعتماد نظر آرہا ہے اس سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کے خلاف تمام مقدمات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں اور سزائیں بھی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دی جارہی ہیں جس کا استدلال بھی ماضی میں نواز شریف اور ان کی جماعت پر بنائے گئے مقدمات پر ہی کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد بھی انتخابات سے قبل مقدمات اور سزاؤں میں پائی جانے والی مماثلت ہے جو لوگوں کے یقین کا سبب بن رہی ہے۔
جس طرح سے نواز شریف کو 2018 کے انتخابات سے قبل سزائیں سنائی گئیں اسی طرح سے آج عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بھی سائفر کیس میں 10 سال کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اب فیصلوں پر تو قانونی آراء مختلف ہوسکتی ہیں گو مقدمات اور سزاؤں کی نوعیت مختلف ہے مگر سزاؤں کا وقت اپنے سیاسی جزیات یا تاثرات ضرور رکھتا ہے جس سے اس کے سیاسی فوائد اور نقصانات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ماضی کی ان سزاؤں جن پر استدلال کیا جارہا ہے ان کی بھی ایک تاریخ ہے جو اپنے آپ کو دہراتے ہوئے دیکھی جاسکتی ہے جن میں تحریک انصاف کی خوشیوں میں بانٹی گئیں مٹھائیاں، اُن سزاؤں پر عدالتوں کی مانیٹرنگ اور فیصلوں پر اعتماد اور تعریفوں کو بھی سوشل میڈیا محفوظ کئے ہوئے ہے جو آج کل کے ٹرینڈز کی زینت بنے ہوئے ہیں۔
سوشل میڈیا کا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ جھوٹ کو عام تو کر سکتا ہے مگر اس کو چھپا نہیں سکتا۔ بدلے ہوئے بیانیوں کو چلا تو سکتا ہے مگر ماضی کے بیانیوں کے ساتھ ان کے تضادات کا اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ اگر آج کوئی موجودہ سوشل میڈیا کے بیانیوں کو چلا کر فخر کر سکتا ہے تو وہ اپنی نادانی پر ہے نہ کہ چالاکی پر کیونکہ سوشل میڈیا کے لئے ماضی کے تضادات کو محفوظ رکھنا اس کی ایمانداری اور ساکھ کا معاملہ ہے جس کو کوئی خاطر میں لائے یا ناں اس نے تو نبھانا ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ ڈھیٹ بن جاؤ۔
ایسے میں کوئی ماضی کے ریاست کو پہنچائے گئے نقصانات کو مانے یا نہ مانے اس کی اپنی صوابدید ہے مگر بین الاقوامی جریدوں کے ترقیاتی اہداف پر تقابلی جائزے، سیاسی مکافات عمل کی داستانیں، ٹرانپیرنسی انٹرنیشنل کی بد عنوانی پر مبنی رپورٹس اور مقبولیت پر کئے گئے سروے اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر عمران خان اور ان کے ہمدردوں کو واقعی انکے بے قصور ہونے کا یقین و دعویٰ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو ان کو بھی ان فیصلوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے نواز شریف کی طرز پر اپنا معاملہ ایاک نعبدو و ایاک نستعین پڑھتے ہوئے اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ کیونکہ ان کا اگر پاکستان کی عدالتوں اور بین الاقوامی میڈیا پر بھروسہ نہیں تو اللہ پر تو ضرور ہوگا اور اللہ کے اصول کبھی بدلتے نہیں۔
اسی طرح دوسری طرف نواز شریف کو بھی موجودہ منظر نامے میں ان کے خلاف جو اداروں کی سہولت کاری اور ہمدردیوں کے الزامات چل رہے ہیں اور پھر وقت کے سیزن کی دہرائی جانے والی قسط کے تاثرات جو منظر نامہ پیش کر رہے ہیں ان پر خاموشی کو توڑ کر اپنی وضاحت پیش کرنا ہوگی اور ایک بار پھر اپنے موقف کا اعادہ کرنا ہوگا جس میں انہوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا ہوا ہے۔
ان الزامات کا دعوی تحریک انصاف کا تو تھا ہی جسے سیاسی حریف کا بیانیہ کہا جا سکتا ہے مگر اس میں ان کی سترہ ماہ کی حکومت کی اہم اتحادی پیپلز پارٹی بھی پیش پیش ہے جو عوامی رائے پر بہت گہرے اثرات چھوڑ رہی ہے جس کا مسلم لیگ نون کو سنجیدگی سے نوٹس لینا ہوگا اور اس پر ان کی اور عبوری حکومتوں بشمول اداروں کی طرف سے خاموشی اس بیانیے کو مزید تقویت دے رہی ہے۔
مسلم لیگ نون کی مقبولیت بڑھ تو رہی ہے مگر یہ سفر تنزلی کے بعد سے دوبارہ طے ہو رہا ہے جس میں ان کی سابقہ کارکردگی پر عوام کا اعتماد شامل حال ہے لیکن ان کو پاکستان کی سیاسی ثقافت کو نہیں بھولنا چاہیے جس میں کسی بھی وقت پوشیدہ خطرے کی ممکنات سے واسطہ پڑ سکتا ہے اور ایسی صورتحال میں جو ان کے خلاف گراونڈ بنائی جارہی ہیں ان کی موجودگی میں مقابلہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پاکستان مزاہمتی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا اور مفاہمتی اور مصالحتی سیاست ہی ریاست کو لگے ہوئے زخموں کی مرہم بن سکتی ہے مگر ان زخموں کو پھر سے کریدے جانے کے خدشات اور خطرات سے بچاؤ کے کسی لائحہ عمل کی فکر بھی تو ہونی چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں کو ماضی کی ہی ناکام حکمت عملیوں کے زریعے سے درست کرنے میں کوئی دانش مندی نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس سے کوئی بہتری کی امید وابستہ کی جا سکتی ہے۔
ہمیں صرف عوام کی مہنگائی، بیروزگاری، غربت کا ہی خیال نہیں رکھنا بلکہ ان کی سادگی کو سمجھتے ہوئے ان کی نفسیات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا جس میں پچھلے دس سالہ ریاستی وسائل اور طاقت کی بنیاد پر بدلی ہوئی سوچ اور مزاج ہیں جن کے تحت ان کو اپنے مسائل سے بھی زیادہ اپنی ضد اور تماشہ دیکھنے کی عادت عزیز بن چکی ہے۔ جن پر اچھے برے اور سچ جھوٹ میں تمیز والی دلیل کی بجائے مظلومیت کا رونا دھونا زیادہ اثر رکھتا ہے۔ جسے شعور بنا کر پیش کیا گیا اس کا بھی علاج دریافت کرنا ہوگا۔