Bechare Judge
بیچارے جج
یہ ججز کے خط کو تو دنیا کے ایک عجوبے کا درجہ دے کر مونومنٹ میں سجا دینا چاہیے کہ انہوں نے شفاف، غیر جانبدار انصاف کی فراہمی کے لئے علم بلند کر دیا ہے اور اپنے اوپر دباؤ کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو کوئی خفیہ خط بھی نہیں لکھا بلکہ پہلے اس کی اشاعت کو ترجیح دی اور عوام کو بھی سارے معاملے سے آگاہ کر دیا ہے تاکہ وہ بھی جان سکیں کہ وہ کیوں قوم کو انصاف فراہم نہیں کر پا رہے۔
میرے خیال میں تو اب ایوان عدل کو اس وقت تک بند کر دینا چاہیے جب تک وہ اپنے اوپر دباؤ کے حل کے لئے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتے یا اس کا کوئی پائیدار حل نہیں ڈھونڈھ لیتے اور باقی پورے ملک کی ضلعی عدالتوں کو حکم نامہ جاری کر دینا چاہیے کہ وہ بھی وکلاء کی طرح جب تک ان سے دباؤ کو ختم نہیں کر دیا جاتا ہڑتال پر رہیں گی اور اس وقت تک عدالت میں نہیں بیٹھیں گے جب تک ان سے مکمل طور پر دباؤ کو ختم نہیں کر دیا جاتا یا ان کے گھروں میں لگائے گئے کیمروں، ان کے گھر والوں کو لاحق خطرات اور رشتہ داروں پر کئے گئے تشدد کی رپورٹس درج کرکے ملزمان کی گرفتاری کے بعد ان کو قابل قبول تحقیقات نہیں کر لی جاتیں۔
حکومت کو اور ریاست کے اداروں کو چل پتا جائے گا جب ان پر الزامات میں گرفتاری کے بعد عدالتیں ہڑتالوں پر ہونگی تو ان کو نہ کوئی ریمانڈ دے گا اور نہ ہی ان کی گرفتاری ختم ہوگی اور چند ایک ایمرجنسی عدالتیں لگا لیں جو اس تفتیش پر نظر رکھیں اور اس بات کو یقینی بنائے رکھیں کہ گرفتار ملزمان کو چھوڑا تو نہیں جا رہا اور روزانہ ایک آدھ نئی رپورٹس ان اداروں کے اہلکاروں کے خلاف درج کرواتے رہیں جب تک تمام وگڑے تگڑے ٹھیک نہیں ہو جاتے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے۔
بیچارے جج کریں بھی کیا جب ان کو آزادانہ طور پر کام ہی نہیں کرنے دیا جاتا اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ پچہتر سالوں سے یہی سلسلہ جاری ہے ان پر دباؤ سے من مرضی کے فیصلے لئے جاتے رہے ہیں جس میں بدنامی ان کی ہوتی رہی۔ تاریخ ججز کی مظلومیت کی گواہ ہے جس کا آغاز جسٹس منیر اور ارشار حسن خان سے شروع ہوا عمومی طور پر تو ان سے سیاستدانوں کو نا اہل، حکومتیں ختم، وزیر اعظموں کو رسوا کروایا جاتا رہا لیکن ایک ایسا بھی بلنڈر کروایا گیا کہ جس میں ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی حکم پر پھانسی پر لٹکا دیا گیا جس کا عدلیہ کی تاریخ کے ہیرو جناب معصوم جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک تاریخی انٹرویو میں پوری قوم کے سامنے نہ صرف پردہ چاک کیا بلکہ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس پر بھٹو کو فری ٹرائل کا حق نہ ملنے کے بارے تمام تر مخالفتوں اور دباؤ کے باوجود فیصلہ بھی جاری کر دیا ہے۔
ججز چونکہ میڈیا کے ساتھ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے اس لئے ان سے رابطہ تو ممکن نہیں تھا لیکن میں نے مصنوعی ذہانت کے زریعے سے ان کے دلوں کے تمام خدشات کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے جن سے عوام کو آگاہ کرنا بھی اپنی انوسٹی گیٹو صحافت کی اولین ذمہ داری سمجھتے ہوئے سب کچھ صاف صاف بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں جس کا لب لبان کچھ یوں ہے۔
ظلم کی حد دیکھئے کہ وکلاء کو بھی لالی پاپ دئے رکھا گیا ان میں سے جو بھی قیادت کی اہلیت یا قابلیت کے درجے کو پہنچ جاتے ان کو ورغلا کر جج بھرتی کروا دیا جاتا اور ان کو نفسیاتی طور پر میسرزم کے زریعے سے یہ باور کروائے رکھا جاتا کہ وہ تو ان کی قیمتی جانوں کی حفاظت کی خاطر ان کو سیکیورٹی فراہم کرتے ہیں۔ ججز کی بھرتی کا طریقہ کار بھی یہ اس لئے تبدیل نہیں کرنے دیتے کہ کہیں ججز ان کے کنڑول سے باہر نہ ہو جائیں وگرنہ ہم نے بہت دفعہ کوشش بھی کی کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعنیاتیاں بھی مقابلے کے امتحان کے تحت کی جائیں۔ ان کی چھوٹی موٹی غلطیوں کی وڈیوز بنا لی جاتیں اور اگر کوئی جج کسی ظلم کا حصہ بننے سے انکار کرتا تو اس کو بلیک میل کرکے سیاستدانوں کے خلاف بد عنوانی کے جرائم کی سزائیں دلوانے کے سیاسی فیصلے کروائے جاتے جس کی نا قابل تردید گواہیاں نیب کے جج ارشد ملک جیسی ریکارڈ پر موجود ہیں۔
اسی طرح جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بھی جب ان کی مرضی کا فیصلہ دینے سے انکار کیا تو اس کو اس کے عہدے سے فارغ کروا دیا گیا اور باقی ججز کو اس سے ڈرایا جاتا رہا کہ اگر وہ بھی ان کا حکم نہیں مانیں گے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے گا جس کو وہ مسلسل برداشت کرتے رہے لیکن اب ان کی برداشت جواب دے گئی ہے اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ اس دباؤ کے اندر بالکل بھی نہیں رہیں گے۔
اگر ان سے دباؤ کے تحت فیصلے کروانے تک معاملہ رہتا تو شائد وہ برداشت بھی کرتے رہتے لیکن اب تو اپنے مطلب کے فیصلے لینے کے بعد ان کو نوکریوں سے بھی فارغ کروا دیا جاتا ہے جیسا کہ جسٹس مظاہر اکبر نقوی پر اسی طرح کے الزام لگوا کر ان کی مراعات بھی ختم کروا دی گئیں اور اب سپریم کورٹ سے ایسے فیصلے کروائے جانے لگے ہیں جو ان کے استعفیٰ دینے کے باوجود بھی ان پر جھوٹے سچے الزامات کی تحقیقات کا عمل نہیں رکے گا۔ پہلے تو جب ان کو زیادہ بلیک میل کیا جاتا تھا تو وہ استعفیٰ دے کر اپنی مراعات بچا لیتے تھے مگر اب ان کے حصول کا راستہ بند کروایا جانے لگا ہے۔
کئی ججز دباؤ کے تحت استعفے دینے پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن ان کو فکر یہ ہے کہ کہیں کوئی سپریم کورٹ سے ایسا فیصلہ بھی نہ دلوا لیں جس کے تحت ریٹائرڈ ججز کے خلاف بھی درخواست دے کر ان کی تمام مراعات کو واپس لینے کا حکم نامہ بھی جاری ہو جائے۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ججز کے اندر بھی تفریق پیدا کرکے ان کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا ہے اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرکے اپنا الو سیدیا کر لیا جاتا ہے لیکن اس کا بھی حل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پھر ان کی اور ان کے خاندان کے تمام ٹیلی فونک رابطوں کو بھی ریکارڈ کیا جاتا ہے اور کئی دفعہ جعلی ریکارڈنگ کرکے بھی ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے لیکن اب وہ ان ہتھکنڈوں میں قطعاً بھی نہیں آئیں گے اور جتنا کوئی دل ہے ان کے خلاف درخواستیں دے لے یا ان کی وڈیوز کو لیک کر لے عوام کو سب معلوم ہوگیا ہے اور ان کو پوری امید ہے کہ قوم ججز کی بحالی کی تحریک کی طرح ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی اور ان سے دباؤ کو ہر صورت ختم کروا کر ہی دم لے گی۔ اب ہر جج ان کو ثاقب نثار، افتخار چوہدری، جسٹس نسیم حسن شاہ بن کر دکھائے گا۔
اب ان کو نہ تو اپنی بدنامیوں کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی کوئی اور پریشانی ہے وہ سروں پر کفن باندھ کر نکل آئے ہیں اور جب عوامی حمایت کے تحت پوری قوم کی ہمدردیاں ان کے ساتھ ہونگی تو سیاسی جماعتوں کی بھی ان کی حمائت مجبوری بن جائے گی اور ویسے بھی اب سارے راز فاش ہو جانے کے بعد سیاستدان بھی سمجھ گئے ہیں کے بیچارے ججز سے ان کے خلاف فیصلے تو ان کی مرضی کے خلاف کروائے جاتے رہے ہیں۔ جس کی مثال یہ ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی مقبول جماعت تحریک انصاف تو ان کے ساتھ کھڑے ہونے میں پہلے ہی پیش پیش ہے کیونکہ وہ بھی ججز کی طرح ان کے بہت قریب رہی ہے اور ان کے طریقہ واردات کو سمجھتی ہے اس لئے ان کے تین سو وکلاء نے بھی اپنا سارا دباؤ ان کے پلڑے میں ڈال دیا ہے جس کے اثرات ہی ہیں کہ سپریم کورٹ نے سوؤ موٹو بھی لے لیا ہے اور کئی بار کونسلز نے بھی ان کے حق میں اعلامیے جاری کئے ہیں۔ اسی طرح وہ جب بھی جس موقع پر بھی عوامی یا وکلاء کی طرف سے دباؤ کی ضرورت محسوس کریں گے تو اس کا بندوبست ہوتا رہے گا۔ اب آئین و قانون اور جمہوریت کی بالادستی تک یہ جنگ جاری رہے گی۔