Awami Khidmat Par Tawajo Dein
عوامی خدمت پر توجہ دیں
جس طرح سے بڑی سیاسی جماعتوں کو ایک ایک صوبے میں اکثریت اور مرکز میں ایک خاص تناسب سے مینڈیٹ ملا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان پر قومی سطح پر ایک ہی طرح کی توقعات وابستہ ہیں یا پھر قوم ان کے باہمی اتحاد و اشتراک سے کام کرنے کی خواہاں ہے جبکہ صوبوں کی سطح پر ان کی علاقائی مقبولیت ان پر اعتماد کو واضح کر رہی ہے۔
فافن کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کی مقبولیت برقرار رہی ہے اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی مقبولیت پہلے سے بڑھی ہے گو اس کا تقابلی جائزہ بھی 2018 کے انتخابات سے کیا گیا ہوگا۔ جس پر سیاسی جماعتوں کو تحفظات بھی ہوسکتے ہیں جو اپنی جگہ پر جائز ہونگے مگر اب ان مباحثوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملکی معاشی حالات اس بات کے متحمل دکھائی نہیں دیتے۔
لہذا اب سیاسی جماعتوں کو خدشات اور الزامات کی سیاست کی بجائے اپنے اپنے منشور کے مطابق عوامی خدمت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ صوبوں میں تمام سیاسی جماعتوں کو واضح اور بھاری اکثریت حاصل ہے۔ موجودہ احتجاج اور دھرنوں کی سیاست سے مرکز میں بھی کوئی خاص برتری کے حصول کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اگر دو چار سیٹوں کا فرق پڑ بھی جائے تو پھر بھی کوئی جماعت اس سے دوسری جماعتوں کی مدد کے بغیر حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تو ایسے میں عدم استحکام کے علاوہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ہاں اگر وہ چاہیں تو قانونی جنگ جاری رکھیں مگر اس کو انتشاری پسندی، باہمی کشمکش اور تفرقہ بازی کی طرف نہ بڑھنے دیا جائے۔
سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے صوبوں میں ایک مسابقتی دوڑ کے زریعے سے دوسرے صوبے کے عوام کے لئے مثال قائم کریں تاکہ ان کے عوام بھی اپنی حکومتوں پر ان کی طرز پر منصوبوں کو شروع کرنے کا دباؤ ڈالیں اور اگلے انتخابات میں ان سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کی بنیاد پر عوامی مقبولیت میں برتری حاصل کرنے کا ایک مثبت رجحان پیدا ہو۔ حکومت سازی ایک ذمہ داری کا کام ہے اور حکومت عوام کو اپنی کارکردگی کے بارے جوابدہ ہوتی ہے جس کا ایک جمہوری طریقہ کار حکومت میں اپوزیشن کے کردار کی صورت میں ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں عوامی نمائندگی کو صرف حکومت سازی کی صورت میں اختیارات کے تناظر میں ہی دیکھا جاتا ہے جبکہ یہ کردار اپوزیشن میں بیٹھ کر ایک تعمیری تنقید اور اصلاحی تجاویز کے زریعے سے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں کا وفاقی پارلیمان میں تنوع بھی جمہوریت کا ایک حسن ہے اور مل جل کر کام کرنے کا ایک نیا تجربہ ہے۔ جس میں وہ اپنے صوبوں کی بھی اچھے طریقے سے نمائندگی کرتے ہوئے عوام کی امنگوں کو حکومتی سطح پر وفاق میں پیش کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ترقی و خوشحالی کے ماڈلز، تجربات کی شراکت اور دوسروں سے سیکھنے کا ایک سنہری موقع ہے۔ اگر وہ چاہیں تو اس تنوع کو بھی ایک چیلنج سمجھتے ہوئے، اس کو مواقعوں میں بدل سکتے ہیں بشر طیکہ ان کی سوچ میں مثبت خیالی ہو تو۔
اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو جہاں کارکردگی دکھانے کے لئے صوبوں میں واضح مینڈیٹ دے کر حکومت بنانے کا موقع دیا گیا ہے وہاں ان کو مرکز میں ایک تناسب سے نمائندگی دے کر ایک آزمائش میں بھی ڈال دیا ہے کہ ان کی سوچ و عمل میں کس قدر دوسری سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی برداشت ہے اور وہ کس قدر اکٹھے کام کرتے ہوئے پارلیمان کی بالادستی اور عوامی فلاح و بہبود کے لئے مخلص ہیں۔
سیاست صرف انتخابات کا انعقاد اور حکومت سازی کا ہی نام نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ بھی احساس ہونا چاہیے کہ وہ سیاست کے میدان میں ایک ماڈل ہیں اور ان کو عوام کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ ان کے اندر ایک احساس ذمہ داری بھی پیدا کرنا ہے۔ جس کو انہوں نے اپنے قول و فعل سے پیش کرنا ہے۔ جس میں ان کے رویے اور انداز سیاست بھی اسی کا حصہ ہیں۔ اگر وہ خود ہی اپنے مفادات کے لئے عوام کو انتشار اور سیاسی تفرقہ بازی کی طرف راغب کریں گے تو یہ ان کے اپنے لئے بھی ایک چیلنج ہوگا، جس کی مثال ہماری پچھلی دس سالہ سیاست میں موجود ہے اگر ہم سمجھیں تو۔ اگر کوئی جماعت دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے مشکلات پیدا کرے گی تو رد عمل میں ان کو بھی ایسا ہی ماحول ملے گا جو ایک سیاسی کشمکش، انتشار اور تفرقہ بازی میں بدلےگا، جس کے اثرات صدیوں تک تباہی کا سبب بنتے ہیں۔
اگر قریب ماضی کی سیاست کو دیکھیں تو مسلسل ایک کشمکش کی صوتحال رہی ہے۔ جو عدم اعتماد کی تحریک کے بعد تو صوبوں کی حکومتیں وفاق کے خلاف صف آراء ہونے کا ماحول پیش کئے ہوئے دکھائی دیتی تھی۔ جس کی وجہ سے آج ہم سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوکر معاشی بدحالی کا سامنا کر رہے ہیں۔۔ ماضی میں جن سیاسی جماعتوں نے محاذآرائی کی راہ کو چنا انہوں نے اپنی طاقت اور مقبولیت کو کمزور کیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے حالیہ عوامی مینڈیٹ کی بنیادوں پر غور کیا جائے تو جہاں ان کا کردار اور کاردگی ایک مثبت عمل کے طور پر ملتے ہیں وہیں ضد، بغض اور نفرت بھی واضح ہیں۔ جو ان کو آپس میں مل بیٹھنے میں رکاؤٹ بنتا ہوا دکھائی دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی ہیں کہ اگر وہ دوسری جماعتوں کے ساتھ بیٹھ گئیں تو ان کا سیاست کا جواز ہی ختم ہوجائے گا جو ایک انتہائی تشویشناک سوچ ہے۔ جنہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی دوسروں پر الزامات کو بنایا ہوا ہے ان کو مفاہمتی سیاست کی صورت میں خطرات تو نظر آئیں گے۔
اگر کوئی جماعت سمجھتی ہے کہ اس کو دوسروں پر انگلی اٹھانے کا حق ہے تو پھر اس کو اپنے گریبان میں بھی جھانکنا ہوگا۔ کوئی بھی جماعت اس طرح کے الزامات سے مبرا نہیں اور اگر اس کی ایک انگلی دوسروں کی طرف اشارہ کر رہی ہے تو چار انگلیاں ان کے اپنے کارناموں پر اسے متنبہ بھی کر رہی ہیں۔
اور جو عالمی سطح پر حالیہ انتخابات کے بعد ہماری سیاست پر تبصرے کئے جارہے ہیں وہ بھی انتہائی قابل تشویش ہیں۔ سیاست اور جمہوریت کے نام پر عوام، اداروں، سیاسی جماعتوں اور ریاست کے درمیان ایک واضح تقسیم کا تاثر ملتا ہے جس سے ہمارا قومی تشخص بدحال ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پر ہماری ساکھ بحال اور تعلقات مضبوط ہوں تو ہماری سیاسی جماعتوں، اداروں اور عوام کو اپنے طرز عمل پر توجہ دے کر اپنی اپنی اصلاح کرنا ہوگی۔ اور اگر انہوں نے اپنا طرز عمل اور رویے نہ بدلے توبعید نہیں کہ عوام ان سے مایوس ہوکر انہیں مسترد کردیں جیسا کہ کئی سیاسی شخصیات کے ساتھ حالیہ انتخابات میں ہوا بھی ہے۔