Asal Rukawat Tarz e Siasat
اصل رکاوٹ ان کا طرز سیاست
سیاستدانوں کا مکافات عمل سے گزرنا تو پاکستانی سیاست کی ریت رہی ہے مگر آج تک کسی نے اس قدر اپنا اعتماد نہیں کھویا جس قدر عمران خان اور ان کی جماعت نے اتنے تھوڑے عرصے میں کھو دیا ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والے اس سارے عمل میں جہاں ان کو قانونی کاروائیوں کا سامنا کرتے ہوئے مشکلات اور سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے وہاں ان کا 2018 کے حالات جن سے وہ مستفید ہوئے پر استدلال کرتے ہوئے ان کو جو ہمدردیاں ملی ہیں وہ صلہ بھی کوئی کم نہیں جن میں ان کے ریاست کے ساتھ کئے جانے والے کھواڑ میں اعتراف کے باوجود ان کو ایک بار پھر سے فائدہ ہی مل رہا ہے بلکہ کچھ مزید ایسے صحافیوں کا اضافہ بھی ہوگیا ہے جو جمہوریت پر نتائج سے نابلد غیر مشروط اپنی وفائیں لٹانے والے ہیں۔ جو موجودہ سیاسی حالات میں ان کے ساتھ زیادتیوں کا واویلہ کرکے ان کو فائدہ دے رہے ہیں۔
مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اس وقت تحریک انصاف کا سب سے بڑا دشمن عمران خان کا اپنا اور تحریک انصاف کے کارکنوں کا رویہ ہے وہ خواہ چوک چراہوں کی سیاست ہو، عدلیہ کے سامنے پیشی کے وقت ہو، صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یا سوشل میڈیا پر جس میں نہ جمہوری اقدار کی جھلک ہے نہ اصولی سیاست کی چاشنی ہے اور نہ ہی قول و فعل میں مطابقت والی ساکھ جس پر کوئی اعتماد کرتے ہوئے ان کو ملکی سیاست کے موافق سمجھ کر ان کے لئے رعائت کا کوئی جواز ڈھونڈھ سکے۔
جسکی دلیل ان کا انداز سیاست ہے جس کا آغاز دھرنوں کی سیاست سے شروع ہوا اور جو ابھی تک جاری ہے۔ ان کی سیاست میں کوئی بھی لمحہ ایسا نہیں جس میں انہوں نے پارلیمانی سیاست کو ترجیح دی ہو جس سے اگر کوئی بات واضح ہے تو وہ محض اقتدار کی حوس ہے جس نے ان کی سیاست کی پہچان کو انتشار سے جوڑ کر ان پر اعتماد کو اس قدر زائل کر دیا ہے کہ ان کے لئے گنجائش پیدا کرنا ہی نا ممکن ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سیاست میں 2014 سے لے کر اب تک کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں جس میں یہ ثابت ہوسکے کہ ان کی حکمت عملیوں میں سیاسی عدم استحکام سے ماورا کوئی سبیل پیدا ہوسکتی ہے اور ملک کے معاشی حالات اس قابل نہیں رہے کہ مزید ان کو برداشت کیا جاسکے۔
2014 سے انہوں نے جس جارحانہ سیاست کا آغاز کیا اس میں پارلیمان کی طرف جانا ہی وہ گناہ سمجھتے تھے جس پر عمران خان نے اپنی حد تک تو اپنی حکومت کے دوران بھی خوب عمل کیا اور جیسے ہی ان کی حکومت عدم اعتماد سے گئی تو انہوں نے استعفے دے کر پھر سے چوک چراہوں کی سیاست کا انتخاب کر لیا اور اس پر اپنی صوبائی حکومتوں کو بھی قربان کر دیا، نہ خود کام کیا اور نہ وفاق کو کرنے کی ہوش لینے دی اور ان کی یہی وہ حکمت عملی ہے جس کا کسی کے پاس بھی کوئی علاج نہیں۔
اس وقت ریاست کی پریشانی یہ ہے کہ تحریک انصاف کو جس قدر بھی لیول پلینگ فیلڈ دے دی جائے لیکن اگر ان کو انتخابات کے نتائج میں اکثریت نہ ملی تو وہ انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر پھر سے چوک چوراہوں میں اپنا سٹیج سجا لیں گے جس کا حل ریاست کے پاس سختی کے علاوہ کوئی نہیں۔
ریاست اس وقت دبے انداز میں ہر اس ذی شعور کو چیلنج کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جو ان کے لئے لیول پلینگ فیلڈ کے مطالبے کے دعویدار ہیں کہ اگر کوئی ضمانت دے سکتا ہے تو وہ سامنے آئے اور ریاست اور اداروں کو کوئی ایسی دلیل یا ضمانت دے جس سے یہ ثابت ہو کہ وہ ایک اچھے جمہوری بچے کی طرح سیاست کریں گے۔ جس کی ضمانت دینا ہر کسی کے لئے ناممکن ہے کیونکہ ان کی سیاست میں اقتدار سے کم کسی سطح پر کوئی اطمنان نظر ہی نہیں آتا۔
جس کی بنیاد ان کا یہ وہم یا مفروضہ ہے جو ان کے سوشل میڈیا کے بیانیے نے جنم دیا ہوا ہے کہ ان کی جماعت کی عوام میں نوے فیصد اور فوج میں اسی فیصد مقبولیت ہے جس کے سامنے موجودہ سروے رپورٹس اور ان کے 9 مئی کے کارنامے کے خلاف فوج میں ان کے بارے ابھرنے والی نفرت کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی۔ اس کی وجہ ان کو اگلے دس سالہ اقتدار کی یقین دہانیاں بھی ہیں جن کا بندوبست عدلیہ اور فوج کے اندر بھی کافی حد تک کیا جا چکا تھا جس کی بنیاد پر ان کی غلط فہمیاں اب ان کو سکون نہیں لینے دیتیں۔
چند ہفتے قبل یہ کہا جاتا تھا کہ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کا کوئی لیڈر عوام میں انتخابی کمپین کے لئے نہیں نکل سکتا۔ ان کے خلاف عوام میں اتنا غضب پایا جاتا ہے اور اسی غلط فہمی میں چند نا سمجھوں کی ان جماعتوں کے کارکنان سے دھلائی بھی ہوئی لیکن پھر بھی تحریک انصاف کے کارکن باز نہیں آ رہے دو دن قبل جسٹس اطہر من اللہ کی لندن میں توہین کی گئی جس کی وجہ سے ان کے خلاف اب یہ عام تاثر پیدا ہوچکا ہے کہ ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے علاوہ کوئی دوسرا حل ہی نہیں ہے۔
ان کی آنکھوں پر غلط فہمیوں کی ایسی پٹی بندہی ہوئی ہے کہ ان کو دوسری جماعتوں کے اتنے بڑے جلسے نظر ہی نہیں آتے اور ان کو سوشل میڈیا کی غلط بیانیوں اور جھوٹ پر مبنی سیاست نے حقائق سے کوسوں دور کر دیا ہے جس سے ان کو جھنجوڑ کا نکالنا نا ممکن لگ رہا ہے۔
ان کی کارکردگی اس قابل نہیں کہ ان کی اقتدار کی ضد کو پورا کیا جاسکے۔ لہذا اب ملکی سیاست میں عمران خان کی گنجائش سے معزرت تو ریاست کی مجبوری بن چکا ہے مگر تحریک انصاف کی تھوڑی بہت گنجائش بن سکتی تھی بشرطیکہ اگر اس کی قیادت کسی سنجیدہ و پختہ سوچ کے ہاتھ میں ہوتی جس کے لئے کافی کوششیں بھی کی جا چکی ہیں اور تحریک انصاف کو وقت بھی دیا گیا ہے۔
جو اس لئے ممکن نظر نہیں آتا کہ تحریک انصاف کے اندر کوئی بھی ایسی قیادت ہے ہی نہیں جو عمران خان کے مزاج یا انداز سیاست کی کمی کو پورا کرسکے جس کے تحریک انصاف کے کارکنان عادی ہوچکے ہیں جو ریاست کو قابل قبول رہا ہے اور اس سے ہٹ کر کوئی کارکنان کو قابل قبول نہیں اور دوسری صورت یہ ہے کہ عمران خان اپنی سیاست کو اصولی اور جمہوری اقدار کی حدود کے اندر ثابت کریں جس کے لئے ایک تو وقت درکار ہے اور دوسرا تحریک انصاف کے کارکنوں اور چاہنے والوں کا جو مزاج بنایا جا چکا ہے۔
اس کا علاج اب شائد عمران خان کے پاس بھی نہ ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر وہ برداشت اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ صلح صفائی کی بات کریں گے تو وہ ان کے اپنے ہی 12 سال سے دئے گئے سبق کے خلاف ہے جس کا آغاز ہی بدزبانی سے شروع ہوتا ہے اور اختتام گالم گلوچ پر ان کا بھی قصور نہیں ان کو یہ باور کروایا گیا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں چور اور بد عنوان ہیں جس کا اتنے عرصے کے دوران یقین بنایا جاتا رہا ہے جس کے پیچھے ریاست کے تمام تر وسائل اور اداروں کی محنت بھی شامل حال تھی جس کا حمیازہ اب ریاست بھگت رہی ہے۔
تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں اور دوسری طرف ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی ہے جس کا مزاج، رویہ اور سیاسی حکمت عملی یکسر مختلف ہے اور اس وقت انتخابات کو بھی اگر وسیع پیمانے پر دیکھا جائے تو وہ صرف دو ہی دھڑوں میں ہے ایک پی ٹی آئی ہے اور دوسرا اینٹی پی ٹی آئی اسکی وجہ یہ ہے کہ اس وقت جو انتخابی منظرنامہ بنا ہوا ہے اس میں پوری کی پوری تبصرہ نگاری حالات کے پیش نظر جو پی ٹی آئی کے ساتھ زیادتیوں کی تصویر کشی کر رہی ہے اس سے پی ٹی آئی کی ہمدردیوں میں کوئی کمی نہیں رہی بلکہ میں تو کہوں گا کہ ہر کوئی پی ٹی آئی کے ووٹروں کو اشتعال دلا رہا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی جماعت اور قائد کے ساتھ ظلم کا بدلا لینا ہے تو نکلو 8 فروری کو ووٹ دینے کے لئے۔
جو کچھ ان کے ساتھ سزاؤں یا الیکٹ ایبلز اور سابقہ اسمبلی ممبران کے چھوڑنے کی بات ہے وہ تو کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن اس کے اندر بھی ان کی اپنی ہی سیاسی حکمت عملیوں کا عمل دخل ہے جس میں سر فہرست 9 مئی کے واقعات ہیں جن کا بوجھ اٹھانا کسی کے بس کی بات نہیں تھی لیکن اس سے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک پر کوئی فرق نہیں پڑا جس کا اعتراف پی ٹی آئی کی قیادت خود بھی کر رہی ہے جس کی وجہ سے اب ان کی آخری امید 9 فروی ہی ہے۔
ان کو جو انتخابی نشان نہیں ملا اس کی وجوہات جو بھی ہوں اس کے منفی اثرات تو اب کافی حد تک ختم ہوچکے ہیں کیوں کہ اب کوئی بھی ان کا ووٹر ایسا نہیں جس کو یہ معلوم نہ ہو کہ ان کی جماعت کا منتخب کردہ امیدوار کون ہے یا اس کا نشان کیا ہے۔ لہذا اب اگر ان کا ووٹر باہر نکلتا ہے تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ بلکہ اب تو ان کی کمپین اس قدر ہوچکی ہے کہ فون کالز، کیبلز اور سوشل میڈیا پر اشتہارات کی بھرمار نے تحریک انصاف کے نامزد امیدواران اور ان کے انتخابی نشانوں کو اس قدر دہرایا ہے کہ اب اس کی کمی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔
لیکن اس سب کچھ کے باوجود جو بات تشویشناک ہے جس سے ریاست اور ادارے پریشان ہیں وہ ان کا مزاج اور رویہ ہے جس کا اظہار انہوں نے ہر اس لمحے میں کیا ہے جس بھی ان کو آزادی ملی ہے اس کی مثال کراچی کے اندر اتوار کو نکلنے والی ریلی میں دیکھ لیں یا کے پی کے کے اندر نکلنے والی ریلیوں میں۔ سوشل میڈیا پر ان کا انداز گفتگو دیکھ لیں یا اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے ساتھ ان کے خلاف فیصلوں پر رویے سے لگا لیجئے جو اداروں کو ان پر اعتماد کو قائم ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے جس کا توڑ نہ ان کے ہمدردوں کے پاس ہے اور نہ ان کے شعلہ بیان سوشل میڈیا کے ایکٹوسٹ کے پاس جو ریاست کو ہر لمحے یہ احساس دلانے میں خوب کامیاب ہیں کہ ان پر سیاسی استحکام کی کوئی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی سوائے اس کے کہ ان کو اقتدار سونپ دیا جائے جو انکی کارکردگی کے پیش نظر اب ممکن نہیں رہا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ تحریک انصاف کی پرامن، اصولی اور جمہوری اقدار کی حامل سیاست کی ضمانت ہے جو کوئی بھی نہیں دے سکتا۔