Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Bilal Hassan Bhatti/
  4. Neeli Bar (2)

Neeli Bar (2)

نیلی بار (2)

زارا فلک شیر کی زندگی میں داخل ہونے والا دوسرا مرد پیر اسرار ہے۔ جس سے زارا کی شادی ناول نگار نے اس طرح اچانک اور عجیب انداز سے کروائی کے ناول کا یہ حصہ پڑھتے ہوئے انتہائی مضحکہ خیز سا محسوس ہوتا ہے۔ آکسفرڈ سے پی ایچ ڈی کرنے والی ایک فیشن ایبل نوجوان خاتون جس کا تعلق ملک کے بڑے سیاسی گھرانے سے ہے۔ جو بچے کے لیے شادی کرتی ہے اور اس کے پاس بے شمار آپشن موجود ہونے کے باوجود وہ ایک پیر سے شادی کرتی ہے۔ جس کی پہلی تین شادیاں ہو چکی ہیں۔ یہ اپنے کرداروں کا چابک سے موڑنے کی واضح مثال ہے۔ خانقاہی نظام پر بطور قاری پاکستان ادب میں جو تنقید یا تصویر کشی تہمینہ درانی نے اپنے ناول "کفر" میں کی ہے، وہ ایسی لاجواب ہے کہ نیلی بار میں خانقاہی نظام پر موجود تنقید یا منظر نگاری اس کی نسبت کچھ ہلکی لگنے لگتی ہے، لیکن ظاہر ہے یہ ناول نگار کی کمزوری نہیں کہی جا سکتی۔

ہاں لیکن کہانی کی اصل روح کے ساتھ پاکیزہ کا کردار کہیں توانا مضبوط اور ہر لحاظ سے مکمل نظر آتا ہے۔ پاکیزہ دیہی علاقوں میں رہنے والے اونچے زمینداروں کی خواتین کی زندگیوں میں پائی جانے والی محرومیوں کی زندہ مثال ہے۔ ایک ایسی عورتیں جو نوخیزی کی عمر سے ہی گھر سے باہر قدم نہیں نکال سکتی۔ جس پر کسی غیر مرد کا سایہ نہیں پڑتا۔ جو باہر کی دنیا کو سنی جانے والی کہانیوں کے ذریعے ہی دیکھتی ہے۔ پاکیزہ کے کردار میں دکھائی جانے والی ہر محرومی ان وڈیروں کی لڑکیوں کی محرومیاں ہیں۔ جو ہر وڈیرہ اپنی زمینوں کو بچانے اور نام نہاد عزت کے نام پر اپنی لڑکیوں کے نام لکھ دیتا تھا۔ وہ نام نہاد عزت، جس میں اپنی عورت کے علاوہ ہر عورت ان کی جنسی تسکین کا سبب بننے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اگر ناول کا کینوس محدود کرکے بس پاکیزہ کے کردار کا ارتقا ہی دکھا دیا جاتا تو پھر بھی ناول کہیں زیادہ مضبوط ہوتا۔

ناول کی زبان اور اسلوب طاہرہ اقبال کا اپنا اسلوب ہے۔ اس اسلوب پر کسی کی چھاپ نظر نہیں آتی اگر کوئی تھوڑا بہت رنگ نظر آئے گا تو وہ خس و خاشاک زمانے کا ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ تارڑ صاحب سے وہ ضرور متاثر ہیں۔ ناول میں موجود پنجابی کے ماہیے دوھڑے اور ٹپوں کا برمحل اور خوبصورت طریقے سے یوں استعمال کیا گیا کہ پنجاب کی رہتل کا ہر رنگ نمایاں ہوتا نظر آتا ہے۔ ٹھیٹھ پنجابی کو اردو کے ساتھ مکس کرکے اردو پڑھنے والے کے لیے قابل قبول بنانا اس ناول کی بہت بڑی خوبی ہے۔ ناول کی منظر نگاری بہت جاندار اور مٹی کا حقیقی رنگ لیے ہوئے، لیکن یہ بعض موقعوں پر بہت زیادہ ڈال دی گئی ہے۔ جو کہانی کو روک کر قاری کو لینڈسکیپ میں الجھا دیتی ہے۔

ناول کے بعض واقعات شاید میرے پلے نہیں پڑے یا واقعی اس میں کچھ تکنیکی خرابیاں تھیں یا یہ فکشن کا کمال تھا۔ اس کا فیصلہ تو قاری کریں گے، لیکن میرے نزدیک چند واقعات جو عجیب محسوس ہوئے ان کا ذکر کرنا لازم ہے۔

پہلے باب میں ملک صاحب کے گھر میں اغواہ شدہ یا کام کرنے والی مٹیاریں کسی بڑے کارنامے جیسا کہ چوری یا ڈکیٹی کرنے والے مردوں کو بطور انعام دی جاتی ہیں اور مردوں کے پاس روز جانے سے ان کو کچھ نہیں ہوتا، لیکن جیسے ہی صفورہ رات کے اندھیرے میں ایک ڈاکو کے پاس جاتی ہے۔ تو وہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ اگر ناول نگار صفورہ کو قتل کروا کر وڈیرہ شاہی کی ظلمیت آشکار کرنا مقصود نہ ہوتا تو پھر اکیلی صفورہ کے علاوہ بھری حویلی میں کم از کم ایک بار ہی کسی اور عورت کے حاملہ ہونے کا ذکر ضرور کر دیا ہوتا۔

پھر زارا کا علی جواد کی پیش قدمی کے ہاتھوں بے بس ہو کر صرف اس لیے علی جواد سے شادی کر لینا بڑا عجیب لگا۔ کیونکہ اول زارا اس سے نفرت کرتی تھی یا اس کے ساتھ اس کا لو ہیٹ کا تعلق تھا۔ ایوب دور کی اصلاحات میں اسقاط حمل کی گولیاں پاکستان میں ملنا شروع ہو چکی تھی اور ملک کے طاقتور گھر سے تعلق رکھنے والی زارا جیسے آزاد خیال عورت کا گولی کے استعمال کی بجائے بس بچے کی پیدائش کے دورانیے تک شادی کرنا بھی تھوڑا عجیب محسوس ہوا۔

پیر اسرار کی حویلی میں رہنے والی ہر عورت ایک دو ماہ بعد حاملہ ہوتی ہے۔ لیکن زارا کا حاملہ نہ ہونا ہم قدرتی امر سمجھ بھی لیں تو زارا کی پیر صاحب سے شادی کے دوران اس کے بعد ایک سال تک منظر سے غائب رہنے والا علی جواد یکدم حرم تک اسی وقت کیسے رسائی حاصل کرتا ہے۔ جب بڑی صاحب زادی نے بدلہ چکانا ہوتا ہے۔ یا گھر میں رہنے والی بڑی صاحبزادی کو علی جواد کا زارا کے ساتھ تعلق کا کیسے پتہ چلتا ہے یا وہ علی جواد کو کس طرح گھر پر بلا لیتی ہے۔ اس سب کی تفصیل کے باوجود محض بدلہ چکانے اور زارا کو علی جواد کے تخم سے حاملہ کروانے کی جلدی کے علاوہ کوئی دیگر وجہ نظر نہیں آتی۔

آخری چیز جو حیران کن یا مضحکہ خیز لگتی ہے۔ وہ علی جواد کی موت کے بعد اس کے بیٹے کی دستار بندی ہے۔ وہ بیٹا جس کا ذکر پورے ناول میں کہیں نہیں آتا۔ علی جواد کی اپنی گھریلو زندگی کو دکھائے بغیر یکدم اس کا بیٹا سامنے لے آنا قاری کے لیے عجیب یا حیران کن چیز بن جاتی ہے۔

نیلی بار شناخت، سیاست، مذہب، دہشت گردی، دیہی و شہری زندگی میں فرق، امیروں کا غریبوں پر ظلم، عورتوں کے حقوق، پنجابی زبان اور پنجاب کے رنگوں کو اجاگر کرتا ایک ایک اچھا ناول ہے۔ ایسا ناول جو قاری کو کئی دہائیوں کی سیر کرواتے ہوئے مختلف سیاسی منظرناموں اور نظاموں کے ساتھ ساتھ نیلی بار کی رہتل کے قدیم و جدید حقائق کا بہتر ادارک دیتا ہے۔ اس وقت طاہرہ اقبال صاحبہ اپنے نئے ناول گراں پر کام کر رہی ہیں۔ امید ہے کہ اپنے مخصوص اسلوب اور انداز بیان کے ساتھ وہ اپنے موضوع کو مزید گہرائی میں جا کر ہمیں دکھا سکیں گی۔ اردو ادب کے قارئین کو اسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیے۔

Check Also

Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

By Rauf Klasra