Tuesday, 21 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Tarjeehat Ka Tayun Bhatakne Se Bachata Hai

Tarjeehat Ka Tayun Bhatakne Se Bachata Hai

ترجیحات کا تعین بھٹکنے سے بچاتا ہے

دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے کہ جس کا دھیان یا توجہ کبھی گمراہ نہ ہوئی ہو۔ آپ جب تک زندہ رہتے ہیں، آپ کا دھیان کنورٹ ہوتا رہتا ہے۔ توجہ کا بھٹک جانا ہرگز برا نہیں ہوتا بلکہ خیالات یا اُس بھٹکنے والی شے کے پیچھے بھاگتے رہنا بُری بات ہوتی ہے۔ اصل چیز خیالات کے بہاؤ سے واپس لوٹ کے آنا ہوتا ہے!

جیسے ہم جب نماز ادا کرتے ہیں تو ذہن میں سو وسوسے یا خیالات آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ نماز کے دوران آنے والے اِن خیالات کو برا نہیں کہا گیا بلکہ کہا گیا ہے کہ فوراً واپس پلٹو اور اِن خیالات کے پیچھے مت بھاگو۔

ہم کوئی بھی کام کرنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ اگر فارغ بھی بیٹھیں ہونگے تو کوئی نہ کوئی چیز ہماری توجہ کو اپنی جانب راغب کر ہی لیتی ہے۔ جیسا کہ اگر میں سینما میں کوئی فلم دیکھنے گیا ہوں تو ساتھ میں بیٹھنے والا شخص میرا دھیان بھٹکا سکتا ہے۔ میں سوچنے لگ جاؤں گا کہ یہ کیسا آدمی ہے، اِس کا حلیہ کیسا ہے یا اِسے میرے پاس نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ کاش کوئی اور آکے بیٹھ جاتا۔ میں اِس کے ساتھ کمفرٹ محسوس نہیں کر پا رہا ہوں بلا بلا بلا۔

جبکہ میرا دھیان صرف اپنی فلم پر ہونا چاہیے، اب اگر میں نے ساتھ بیٹھنے والے انسان کو دیکھ لیا تھا تو دیکھنے کے بعد مجھے اپنی توجہ کو دوبارہ فلم کی طرف کر لینی چاہیے تھا اور ایسا کرنے سے میں سکون میں بھی رہتا۔ لیکن مسئلہ تب بنا جب میں اُس شخص کو لیکر اپنے خدشات، یا خیالات پر قابو نہیں پا سکا بلکہ ان کے دھارے میں بہنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے میری فلم کا سارا مزہ بھی کرکرا ہوگیا۔

یا مثال کے طور پر ایک طالب علم جو کہ دسویں کلاس کے سالانہ امتحانات کی تیاری میں مشغول ہے۔ کل کیمسٹری کا پیپر ہے اور اُس نے ٹھان رکھی ہے کہ آج خوب محنت کرے گا۔ کیمسٹری کی مکمل تیاری کرے گا اور اچانک اُسے ایک کال آتی ہے کہ بھئی، آجا فلاں میلے پہ چلتے ہیں، وہاں کھسرے ناچنے آئے ہوئے ہیں۔ اب یہ بات سن کر وہ طالب علم فوراً سے پہلے بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ کل کیمسٹری کا سالانہ پیپر ہے۔ وہ کھسروں کا سُن کر پوری طرح distract ہو جاتا ہے۔

اصل میں ہماری توجہ نناوے فیصد تک ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ہمیں کوئی بھی چیز تب تک نہیں بھٹکا سکتی کہ جب تک کہ ہم خود نہ بھٹکنا چاہیں۔ اصل میں یہ چیز باہر نہیں بلکہ ہمارے اندر ہوتی ہے۔ ہم خود اپنی توجہ کو کئی راستے دکھاتے ہیں۔ ہمارے خیالات کے گھوڑے سرپٹ دوڑنے لگتے ہیں۔ اور ایسا تبھی ہوتا ہے جب ہم نے اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کیا ہوتا۔ مثال کے طور پر میرے کسی قریبی انسان کا ایکسیڈینٹ ہو جاتا ہے اور اگر تب کوئی مجھے میلے پر جانے کا بولے گا تو میں ہرگز نہیں جاؤں گا کیونکہ تب مجھے میرے ٹارگٹ کا پتہ ہوگا۔ اور یوں ترجیحات خلفشار یعنی توجہ بھٹک جانے والی عادت کو ختم کر دیتی ہیں۔

یاد رکھیں مسئلہ توجہ یا خیالات کا بھٹک جانا نہیں ہے بلکہ ہماری ترجیحات کا تعین نہ ہونا ہے۔ ترجیحات کا پتہ ہو تو پھر دماغ بھٹکا نہیں کرتے۔

اور آخری بات: میرے خیال میں ہم انسانوں نے اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے لیے یہ لفظ Distraction ایجاد کر لیا ہے ورنہ اِس کا کوئی وجود نہیں ہے۔

Check Also

Shadeed Garmi Aur School Tateelat

By Amer Abbas