Pichaikkaran 2
پچیکرن 2
میری بڑی عجیب فطرت ہے، مجھے کوئی بھی چیز آسانی سے متاثر نہیں کرتی۔ مجھے کہیں گھومنے جانا ہو، کچھ کھانا پینا ہو، یا کتابیں پڑھنی ہوں، میں بڑا محتاط ہو کر فیصلے لیتا ہوں کیونکہ وقت بڑا قیمتی ہوتا ہے اور دل نہیں مانتا کہ اِسے کسی فضول کام کی وجہ سے ضائع کروں۔
فلموں کی بات کروں تو اب یہ دیکھنے کی عادت ہی نہیں ہے کہ فلم کے کردار کتنے مشہور ہیں بلکہ کوشش ہمیشہ اچھے اور مثبت کانٹینٹ دیکھنے کی ہوتی ہے۔ فلم بےشک کسی بڑے اداکار کی نہ ہو مگر سبق بڑا ہونا چاہیے، میرے لیے اب یہی اہم ہوتا ہے۔
کل یہ PICHAIKKARAN 2 دیکھی۔ فلم میں اس قدر اچھا سبق دیا گیا ہے کہ مزہ آ گیا۔ ایک ایسا سبق کہ جو آج کی ضرورت ہے۔ فلم میں ایک ایسے مرض کی بابت بتایا گیا ہے کہ اگر اِس پر قابو نہ پایا گیا تو یہ دھرتی ایک دن خالی ہو جائے گی۔ یہ کینسر روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں لوگوں کی جان لے لیتا ہے جس کا علاج صرف روٹی ہے اور اس خطرناک کینسر کا نام "بھوک" ہے۔
فلم کی کہانی کی بات کریں تو جدید طبی آلات کی مدد سے ایک بہت امیر شخص کے دماغ میں کسی غریب انسان کا دماغ ڈال دیا جاتا ہے تاکہ اُس غریب سے ڈر کی مار سے اپنی مرضی کے کام کروائیں جاسکیں۔ فلم میں ایک بھائی کی اپنی بہن سے بےپناہ محبت اور تڑپ بھی بڑے گہرے انداز میں دکھائی گئی ہے۔ امیر شخص کی جگہ آنے والا غریب شخص کیا کرتا ہے اور کیسے اُس کے دشمن پیدا ہو جاتے ہیں وہ کیسے سیاستدانوں کے گھٹیا چہرے سامنے لاتا ہے وہ تو آپ کو فلم دیکھ کر ہی پتہ چلے گا۔ بہرحال فلم کا مرکزی خیال بھوک اور غربت کے متعلق ہی ہے۔
اس کی تقسیم کا معیار وہ خود ہی جانے
بھوک ہوتی ہے کہیں، رزق کہیں دیتا ہے
علی رومی
مجھے یہ کہنے دیجیے کہ اِس دنیا کی سب سے بڑی ضرورت یا پہلی ترجیح خالی پیٹ کو بھرنا ہے۔ یہاں تک کہ محبت کی باری بھی بہت بعد میں آتی ہے، کیونکہ محبت تو بھرے پیٹ کے چونچلے ہوتے ہیں جبکہ خالی پیٹ میں سوائے پیٹ بھرنے کے اور کوئی سوچ نہیں آتی۔
خالی پیٹ کا درد بڑا اذیت ناک ہوتا ہے اور علاج سوائے روٹی کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ یہ نت نئی ایجادات، یہ فلسفے یہ دریافت سب کچھ کرنے سے پہلے پیٹ کا بھرا ہونا ضروری ہوتا ہے ورنہ بغیر روٹی کے دماغ بھی کسی کام کا نہیں ہوتا۔
امیروں کے متعلق سوشل میڈیا ایسی خبروں سے بھرا ہوتا ہے کہ فلاں آدمی اتنا امیر ہے کہ اگر وہ چاہے تو اِتنے ملکوں کو خرید سکتا ہے اور میں سوچتا ہوں کہ کاش وہ امیر لوگ ملک نہ خریدیں بلکہ کچھ بھوکے لوگوں کی بھوک مٹانے کا بندوبست کر دیں۔ کاش وہ کہہ دیں کہ آج سے فلاں غریب ملک کے لوگوں کی بھوک میرے ذمے۔ آج سے کوئی بھوکا نہیں سوئے گا۔
بھوک کا پہیہ بڑی تیزی سے گھومتا ہے۔ انسان کو ہر چند گھنٹے بعد روٹی کی طلب ہونے لگتی ہے۔ لیکن پھر بھی وہ کئی کئی گھنٹوں، یہاں تک کہ بھوک کا دورانیہ دنوں تک چلا جاتا ہے مگر اُس بھوکے کو روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ کس قدر بڑا المیہ ہے کہ جس کے متعلق بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔
اِس فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کو ہماری کوئی پرواہ نہیں ہے بلکہ ہماری غربت، اور ہماری بھوک سے ہی اُن کے کاروبار کو کامیابی ملتی ہے، اُنہیں امیر سے مزید امیر کرتی ہے۔ اور یہ بھی کہ کسی بھی سیاستدان کو عام عوام سے کوئی غرض یا کسی غریب کی تکلیف کا کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ اُنہیں غرض ہوتی ہے تو بس اپنے بینک بیلنس سے اور یہ بات ہمیں جتنی جلدی سمجھ میں آ جائے ہمارے لیے اُتنا اچھا ہے۔
کبھی ہم پہ بھوک اُترے تو احساس ہو کہ بھوک کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے۔ خالی پیٹ کے مروڑ کیا ہوتے ہیں؟