Mohabbat Mein Bhag Jaane Wale
محبت میں بھاگ جانے والے
یاد رکھیں کہ محبت میں بھاگنے والوں کے نصیب بگاڑ دیے جاتے ہیں۔ چاہے جو بھی حالات ہو جائیں، برسوں پرورش کرنے والے والدین کو اپنی محبت کے لیے چھوڑ کر جانا کسی لحاظ سے بھی وضاحت شدہ نہیں ہو سکتا۔
بھاگنے والے یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اُن کی اِس گھٹیا حرکت کیوجہ سے اُن کے والدین ایک تو اپنے بچے کی جدائی میں جو تڑپیں گے سو تڑپیں گے وہ اذیت الگ اور دوسرا معاشرے کی باتیں، طنز اور طعنے سننا پڑیں گے وہ تکلیف الگ۔ تو بھاگنے والے پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ مکافات کے نشانے پہ آ جاتے ہیں جس کی چکی جب چلتی ہے تو اچھے اچھوں کی چھکے چھڑا دیا کرتی ہے۔
وہ مور کی طرح بس اپنے پروں کی خوبصورتی میں کھوئے رہتے ہیں۔ ناچتے ہیں اور خوشیاں مناتے ہیں لیکن جب وقت حالات کی بد ترین ٹھوکر لگتی ہے تو منہ کے بل آ گرتے ہیں اور تب مور کی طرح اپنے بدنما پاؤں پر نظر پڑتی ہے، وہی ہاؤں جو اصل میں قصور وار ہوتے ہیں، جنہوں نے گھر سے بھاگنے میں پوری طرح مدد کی ہوتی ہے۔ پھر جب حقیقت آشکار ہوتی ہے تب دل کرتا ہے کہ اپنے اِن بدصورت پاؤں کو کاٹ کر پھینک دیا جائے۔
سوچنے کی بات ہے کہ جس فیصلے میں والدین ہی راضی یا شامل نہ ہوں، اُن فیصلوں میں برکت یا وہ درست کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ دیر پا کیسے ہو سکتے ہیں؟ وہ فائدے والے کیسے ہو سکتے ہیں۔ بھئی اولاد کے فیصلوں میں والدین کی رضا شامل نہ ہو تو اولاد کا کیا گیا ہر فیصلہ اپنی قیمت ادا کیا کرتا ہے۔
بھاگنے والے جس عمر میں ہوتے ہیں، اصل میں وہ عمر فلمی دنیا والی ہوتی ہے۔ اُنہیں ہر چیز آسان لگ رہی ہوتی ہے۔ اُنہیں لگتا ہے کہ محبت کا مل جانا ہی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ محبوب ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اُنہیں لگتا ہے کہ اُن کی محبت سچی اور سات جنموں تک نبھاہ کرنے والی ہے۔ بس یہ دنیا ہی اُن کی محبت کو نہیں سمجھ رہی اور سب سے زیادہ اُنہیں اُن کی محبت کے سب سے بڑے دشمن اُن کے والدین لگتے ہیں جو اُن کی محبت کو سمجھنے کی بجائے اپنی اولاد سے کہتے ہیں کہ اپنے محبوب سے دور رہو۔ والدین سمجھاتے ہیں کہ یہ محبت نہیں ہے، اور ابھی تم بچے ہو، زندگی کا کوئی تجربہ نہیں ہے تم لوگوں کے پاس۔
اور بس یہیں سے معاملات خراب ہونا شروع ہوتے ہیں اور بغاوت جنم لیتی ہے جو اولاد کو باغی بناتی ہے اور پھر وہ والدین کے خلاف فیصلے کرکے اپنی من مرضی کرتے ہوئے گھر سے بھاگ جاتے ہیں۔
لیکن چند مہینے یا سالوں بعد ہی اُنہیں احساس ہو جاتا ہے کہ اُن کے والدین سو فیصد سچے تھے۔ تب اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ اُن سے کتنی بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ ایسے کیے گئے رشتوں میں ٹوٹنے کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ جب یہ لوگ بھاگتے ہیں تو فلمی دنیا کی وجہ سے لیکن جب اکٹھا رہنا شروع کرتے ہیں تب معلوم پڑتا ہے کہ فلمی دنیا اور عملی زندگی میں کتنا فرق ہوتا ہے۔
لیکن جب تک عقل آتی ہے پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اور ہاتھ کچھ نہیں آتا۔
بھاگنے والے سکون کی زندگی نہیں گزار سکتے کیونکہ اُنہوں نے اپنے والدین کا دل دکھایا ہوتا ہے۔ وہ اِس چیز سے قطعی بےخبر کہ اُن کے والدین اُن کی جدائی میں کس قدر تڑپیں گے، روئیں گے، چیخیں گے چلائیں گے، وہ چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔
ایک چھوٹا بچہ کتنی مشکل سے پلتا ہے، کتنا خرچہ آتا ہے۔ والدین کی کتنی محبت لگتی ہے۔ وہ خود کو گروی رکھ کر تو کبھی بیچ کر اپنے بچوں کے پیٹ پالتے ہیں، اُنہیں خوش رکھتے ہیں۔ اُن کی مرضی کی ہر چیز اُنہیں مہیا کرتے ہیں۔ اِن سب باتوں کے بعد بھی اگر بچے والدین کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنی فنا ہو جانے والی محبت کی وجہ سے بھاگ جائیں تو وہ یاد رکھیں کہ دُکھ اُن کی راہ تک رہے ہیں۔ وہ سکون سے جینا بھول جائیں۔ اُن کی زندگی میں خار ہی خار بھرنے والے ہیں۔
مجھے سب سے زیادہ دُکھ والدین کے متعلق ہوتا ہے۔ کبھی کبھار تو عزت کی نیلامی کے ڈر سے وہ اپنا محلہ، اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ وہی محلہ جہاں انہوں نے اپنی اور اپنے بزرگوں کی زندگی گزاری اور دیکھی ہوتی ہے۔
اِس میں اگر قصور کی بات کریں تو موبائل تک رسائی سب سے بڑا قصور ہے۔ اصل برائی کی جڑ تو ہم نے خود اپنے بچوں کو ہاتھ میں دی ہوتی ہے۔ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کمبائن پڑھائی کہاں کرنے جا رہے ہیں یا کون سے دوست یا سہیلی کی گھر زیادہ آنا جانا ہے۔ کون سی ایکسٹرا کلاسز ہوتی ہیں؟ کالج یا یونی میں کون سے فارم رہ گئے ہیں جو لینے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ کون سی کتابیں ہیں جو لائبریری سے لینی ہیں یا تبدیل کروانی ہیں۔ یہ کون سی پارٹی ہے جو جلدی جلدی ہوتی ہے اور جہاں بہت تیار ہو کر جانا پڑتا ہے۔ یہ کون سا دوست یا کون سی سہیلی ہے جو گھنٹوں فون پہ سٹڈی کے متعلق بات کرتی ہے۔
سارا قصور صرف بھاگ جانے والوں کا نہیں ہوتا، کسی حد تک والدین بھی قصور وار ہوتے ہیں۔ ویسے اللہ ایسا وقت کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے لیکن یہ والدین کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھا کرے۔ ورنہ کچھ غلطیوں اور پچھتاؤوں کے ازالے نہیں ہوا کرتے۔