Mera Man Pasand Manzar
میرا من پسند منظر
ہر انسان کی اپنی زندگی اور مرضی ہوتی یے۔ جہاں اللہ نے اربوں انسان پیدا فرمائے وہیں ہر انسان کی فطرت اور سوچ کا زاویہ بھی ایک دوسرے سے الگ بنایا ہے۔
سگے بہن بھائی حتیٰ کہ جڑواں بچوں کی سوچ اور فطرت بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کسی کو کچھ پسند ہوتا ہے تو کسی کو کچھ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز ایک انسان کو پسند ہو وہ کسی دوسرے کو بھی اُتنی ہی پسند آئے۔
آئیے میرے ایک پسندیدہ منظر کو آنکھوں کے کیمرے میں قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
***
اوپر نیچے چھوٹے بڑے بل کھاتے پہاڑوں کی چوٹیاں ہوں جو کہ گہرے گھنے جنگل میں گھری ہوں۔ دسمبر کے آخری دنوں کی شرارتیں اپنے عروج کی ساری حدیں پار کر رہی ہوں۔
میدانی علاقے سے پہاڑی علاقے کی طرف ٹرین کی ایک بےحد لمبی لائن بچھائی گئی ہو۔ جب وہ ٹرین جنگل سے گزرنے لگے تو برفباری شروع ہو جائے۔ ہر طرف روئی کے سفید ذرے برسنے لگیں۔ ٹھنڈی یخ بستہ ہوا کے تھپیڑے گرتی برف کے ہلکے ذروں کو اِدھر اُدھر پٹخ پٹخ کے مارنے لگیں۔
لمبے تڑنگے سر سبز درخت سفید برف کی دبیز چادر میں چھپنے لگ جائیں اور ٹرین کی پٹڑی سے چند فرلانگ کی دوری پہ ایک ندی، جھیل یا دریا ساتھ بہتا ہوا ریل گاڑی کےسنگ سنگ سفر کرے۔
بیچ میں کبھی کبھی ٹرین کی سیٹی کی آواز بھی کانوں میں گونجے، شور پیدا کرے۔
پھر گھنے جنگل کے بیچ و بیچ، میں زنجیر کھینچ کر ٹرین کو روک دوں اور جب ٹرین رُکے اور میں نیچے اُتروں تو سامنے ایک بہترین اور شاہکار قسم کا گھر بنا ہوا نظر آئے جس میں اعلی قسم کی لکڑی اور شیشے کا کام چیخ چیخ کر اپنی خوبصورتی کی کہانی سُنا رہا ہو۔
میں اُس گھر میں داخل ہوں اور دوسری منزل کے اُس کمرے میں جاؤں جہاں سے ریل کی پٹڑی اور بہتے دریا پر صاف نظر پڑتی ہو۔
کمرے کی بائیں جانب آتش دان ہو جہاں لکڑیاں جل رہی ہوں اور بائیں جانب بیڈ جبکہ کھڑکی کے پاس ایک کرسی اور میز پڑا ہو جس کے اوپر Nickolas Sparks اور مستنصر حسین تارڑ صاحب کی چند کتابیں رکھی ہوں۔ میز کے اوپر ساتھ میں ایک ڈائری اور قلم بھی موجود ہو۔
میں ہاتھ میں بھاپ اُڑاتا گرما گرم کافی کا مگ تھامے کھڑکی کے اُس پار دیکھ رہا ہوں جہاں ہر چیز اپنے آپ کو برف کے حوالے کر چکی ہو جہاں بہتے دریا کی منہ زور لہریں اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوں۔
اور پھر میں وہاں کرسی پر بیٹھ کر اپنے آنے والے اگلے ناول کو لفظوں کی صورت ڈائری کے کاغذ پہ اتارنا شروع کر دوں۔