Mazdoor Day Mubarak Ho
مزدور ڈے مبارک ہو
اقبال ایک سیدھا سادہ انسان تھا۔ چونکہ پڑھا لکھا نہیں تھا تو اِسی لیے محنت مزدوری کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتا۔ اُس کا گھر سات افراد پر مشتمل تھا اور وہ اکیلا کمانے والا تھا۔ اس کے تین بچے، بیوی اور والدین تھے۔ والدہ دل کی مریضہ تھیں۔ آپریشن بھی ہو چکا تھا۔ اب دوائی کے سہارے ہی زندہ تھیں۔ جیسے گاڑی پیٹرول سے چلتی ہے ویسے ہی والدہ دوائی سے سانس لیتی تھیں۔
والد ٹانگوں کے درد میں مبتلا تھے اور اِسی لیے اُن کا زیادہ تر وقت چارپائی پہ ہی گزرتا۔ بچے گورنمنٹ کے سکول میں پڑھتے تھے مگر پھر بھی سو خرچے نکل آتے ہیں لیکن مہنگائی کے اِس دور میں بھی اقبال نے ہمت نہیں ہاری تھی بلکہ دن رات محنت کرتا تاکہ چار آنے کما کر والدین کہ دوائی اور گھر کے آٹے دال کا بندوبست کر سکے۔ وہ کسی کام سے بھی انکار نہیں کرتا تھا جیسا بھی ملتا تھا فوراً حامی بھر لیتا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کے کندھوں پر چھ لوگوں کی زندگی کا بوجھ ہے، اور اُسے یہ بوجھ ہر حال میں اُٹھانا ہے۔ اِسی لیے وہ خوب ڈٹ کر مزدوری کرتا اور گھر والے پیٹ بھر کھانا کھا پاتے۔
اِس مہینے بجلی کا بل زیادہ آیا تو اُس نے ادھار لیکر بھر دیا۔ اب گھر کے سامان اور دوائی کے ساتھ ساتھ اُسے یہ ادھار بھی چکانا تھا۔ وہ تھوڑا تھوڑا کرکے ادھار واپس کرتا گیا اور گھر کا راشن لیتا رہا۔ بہت کوشش کے باوجود بھی ادھار کی وجہ سے وہ اس مہینے اِتنا نہیں بچا پایا تھا کہ ماں کی دوائی لے سکے۔ اس نے مزید ادھار لینے کی کوشش کی مگر وہ کہیں سے انتظام نہ کر سکا۔
ماں کی دوائی ختم ہو چکی تھی۔ باپ الگ سے درد کی شکائتیں کرتا مگر وہ لاچار تھا۔ حکومت نے ادویات پہ ٹیکس بڑھا کر مزید مہنگا کر دیا تھا۔ وہ کیا کرتا؟ وہ بس محنت مزدوری کر سکتا تھا اور وہ یہ کر رہا تھا۔ آج بھی شام واپسی پر اُس کی ماں کھانس رہی تھی تو اُس نے سوچا کہ کیوں نہ وہ اپنے اُس سیٹھ بابو سے بات کرے جس کی کوٹھی پہ اُس نے آخری دفعہ کام تھا شاید کچھ بات بن جائے۔
اگلی صبح اُس نے مزدوری کے اڈے پہ جانے کی بجائے اُسی سیٹھ کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں پہنچ کر اُس نے بنگلے کے باہر کھڑے چوکیدار سے سیٹھ صاحب سے ملنے کی بات کی تو اُس نے کہا کہ سیٹھ صاحب تو گھر پر نہیں ہیں۔ وہ اصل میں آج مزدور ڈے کی چھٹی ہے نہ تو وہ ایک فنکشن میں گئے ہیں۔ رات دیر تک ہی واپس لوٹیں گے۔ "مزدور ڈے کی چھٹی" یہ بات اقبال پہ کسی آرے کی طرح لگی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ کون سی چھٹی؟ مزدور چھٹی کیسے کر سکتا ہے؟ یہ کیسا نظام ہے، کیسی روایت ہے؟ یہ ہمارے نام کی چھٹی اصل میں ہمارا قتل ہے۔ جانے کس نے یہ دن ایجاد کیا اور ہمیں اتنی بڑی تکلیف میں مبتلا کر دیا۔ وہ بڑبڑائے جا رہا تھا۔
میں لعنت بھیجتا ہوں ایسی چھٹی پر۔ اگر ان بڑے بڑے بھاشن دیتے اور خیر خواہوں کو ہمارا اتنا ہی احساس ہے تو مزدور ڈے پر ہمیں اڈے پر آ کے دیہاڑی دے دیا کریں۔ کوئی ایسا نظام رائج کریں کہ یکم مئی کو کوئی مزدور بھوکا نہ سوئے، کوئی خالی ہاتھ اپنے گھر نہ لوٹے۔ بڑے بڑے لوگ اِس دن مزدوروں سے کام کروانا بند نہ کریں۔ بلکہ کام لیں اور ڈبل دیہاڑی دیں مگر نہیں یہاں سب کام ہی اُلٹ ہیں۔ وہ اُس کے بعد سارا دن مزدوری ڈھونڈتا رہا مگر ناکام رہا اور شام کو جب منہ لٹکائے گھر پہنچا تو پتہ چلا کہ اُس کی والدہ اُسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکی ہے۔
ہیپی مزدور ڈے۔