Khuda, Science Aur Hum
خُدا، سائنس اور ہم
تاریخ کا اگر ہم سطحی طور پر بھی مطالعہ کریں تو ہم پورے وثوق سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہر محاذ پر بہت زیادہ ترقی کی تھی اور ہر لحاظ سے لوگ مسلمانوں کے نقش قدم پر چلنے کے بے تاب رہتے تھے لیکن جب سے مسلمانوں کا جو رشتہ خدا سے وابستہ تھا اس سے جیسے جیسے دوری ہوتی گئی مسلمان پست سے پست ہو کر غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے۔
ہم انسانوں نے پتوں کے لباس اوڑھنے سے اپنا سفر شروع کیا تھا اور یہ سفر آسمانوں تک گیا۔ یہاں تک کہ خلاؤں میں بھی ہم نے اپنی فتح کے جھنڈے گاڑے۔ بلا شبہ وہ ہم ہی ہیں جنہوں نے چاند پر پہلا قدم رکھا اور سائنسی علوم میں بیش بہا کامیابیاں بھی سمیٹیں اور ہمارا یہ سفر اب بھی بڑی تیزی سے جاری و ساری ہے۔
آئے روز نِت نئے سیارے دریافت ہو رہے ہیں۔ ہر طرح کی بیماری کا علاج بھی ممکن ہوپا رہا ہے۔ ایک پن کی نِب سے لیکر ہوائی جہاز تک ہر چیز سائنس کی مرہونِ منت ہے اور اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میرا سوال ان لوگوں سے ہے جو اس سائنس کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس چیز سے بھی انکاری ہو جاتے ہیں کہ
"اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے"
جن چیزوں کے بارے میں یہ سائنسدان سالوں کی ریسرچ کے بعد اِتراتے نظر آتے ہیں اُنہیں چیزوں کے بارے میں ہمارا قرآن چودہ سو سال پہلے ہی بتا چکا ہوتا ہے۔
آپ اگر اِن سائنسی لوگوں کی سیرت کا مزید مطالعہ کریں گے تو آپ کو دنیا کے بڑے بڑے سائنسدان خُدا کے وجود کا انکار کرتے نظر آئیں گے اور اُن کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ دنیا خُود ہی وجود میں آئی تو کیا وہ لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ جو چیز خُود اپنے آپ وجود میں آتی ہے وہ اتنی منظم اور اس قدر ترتیب سے نہیں ہو سکتی۔
تو پھر کیسے ممکن ہوا کہ زمین اور آسمان اتنی ترتیب اور منظم انداز میں کھڑے ہو گئے؟
یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ خُدا ہی ہے جو رات کو دن بناتا ہے۔ وہی تو ہے جو آفتاب و ماہتاب کو طلوع و غروب کرتا ہے، کہکشاؤں کو رونق بخشتا ہے۔
موسم اپنے وقت پر آتے اور جاتے ہیں۔ ہر چیز اپنے مدار میں ایک ترتیب سے چکر کاٹ رہی ہے۔ اِس قدر منظم نظام کو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اِس نظام کا کوئی خالق نہیں ہے؟
جیسا کہ اللہ نے سورۃ بقرہ میں ارشاد فرمایا: " وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں، پھر اوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کیے اور وہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے"۔
یہ لوگ جس ریسرچ اور سائنس پہ فخر کرتے نظر آتے ہیں وہ سب کی سب اللہ ہی کی تو دَین ہے۔
اِن انگلیوں کے نشانوں کو ہی دیکھ لیں۔ اِن پوروں کو کس پیارے انداز میں ڈیزائن کیا گیا ہے اور پھر کیسے اِن کے بارے میں بتایا گیا جبکہ سائنس کہیں بعد میں اِس ریسرچ پر پہنچی کیونکہ جب قرآن میں یہ چیز فرما دی گئی تھی تب سائنس کے پاس اتنے وسائل یا اتنی معلومات ہی نہیں تھیں یا یوں کہہ لیں کہ تب سائنس کا وجود تھا بھی اور نہیں بھی تھا۔
ایک اور جگہ میرا اللہ فرماتا ہے جس کا مفہوم ہے۔ "اور دو دریا رواں ہیں جو آپس میں نہیں مل سکتے۔ اُن کے بیچ ایک آڑ ہے اور وہ اِس آڑ سے تجاوز نہیں کر سکتے"۔ (سورۃ الرحمان۔ 19-20)
اور اِسی باڑ کو سائنس نے ریسرچ کرنے کے بعد "سرفیس ٹینشن" کا نام دیا۔
اِسی طرح اللہ سورۃ العلق میں فرماتے ہیں: "اگر وہ باز نہیں آئے گا تو ہم اُس کے پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے یعنی اُس جھوٹے خطا کار کی پیشانی کے بال"۔
اس آیت میں دماغ کے اگلے حصے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ دماغ کا اگلا حصہ ہی انسان سے مخصوص کام کرواتا ہے۔ اور اُسی دماغ کی پیروی کرتے ہوئے انسان خطاکار بنتا ہے اور گناہ کرتا ہے۔
اور اِسے اب جا کے یہ سائنسی ریسرچ ثابت کر رہی ہے کہ انسانی کھوپڑی کی اگلی طرف والا دماغ ہی انسان کو کام کرنے پہ اکساتا ہے۔
اب اگر انسانی ایجادات کی بات کریں بائیک سے لیکر ہوائی جہاز تک جتنا ایندھن بھی ہم لوگ استعمال کرتے ہیں وہ سب زمین کے اندر کے خزانے ہی تو ہیں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں۔ اور یہ لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ یہ چیزیں ہم نے ایجاد کیں تو کیا واقعی یہ چیزیں انہوں نے خُود ایجاد یا دریافت کیں تو میرا جواب ہوگا کہ "ہرگز نہیں"۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتے ہیں کہ جن اور انسان کو میں نے پیدا کیا تو پھر جب پیدا ہی اللہ تعالیٰ نے کیا تو پھر نئی چیزوں کو سوچنے کے لیے اور ایجادات کرنے کے لیے استعمال ہونے والا دماغ بھی اُسی اللہ کا ہی دیا ہوا ہے۔
وہ خُدا ہی قادر ہے سب پہ اور اسی اللہ ہی کے آگے سب بے بس ہیں۔
سائنس خُدا کے آگے بہت چھوٹی ہے اتنی چھوٹی کہ سائنس ابھی تک سمندری مخلوقات کے صرف ایک سے پانچ فیصد تک ہی پہنچ پائی ہے۔ اِس سے آگے سائنس بے بس ہے اور اندازہ لگائیں کہ اُسی سمندر کی صرف ایک مچھلی کو وہ اللہ روزانہ ٹنوں کے حساب سے رزق عطا فرماتے ہیں۔ اور سائنس کے پاس اِس چیز کا بھی کوئی جواب نہیں ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو آگ نے کیونکر نہیں جلایا تھا یا حضرت یونسؑ مچھلی کے پیٹ کے اندر اتنے دن تک کیسے زندہ رہے تھے؟
اِس بات سے قطعاً انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب آپ سائنس کے جس مرضی درجے پر پہنچیں گے وہاں پہلے سے ہی خُدا کو موجود پائیں گے۔
اور بے شک وہی ہے جو زمین و آسمان کا مالک ہے۔