Ishq Nahi Manta Aqal Ki Daleelon Ko (2)
عشق نہیں مانتا عقل کی دلیلوں کو (2)
دوسری طرف مہینوال چناب کے اُس پار اُداس رہنے لگا تھا۔ اُسے سوہنی کی یادیں بڑا ستاتی تھیں لیکن وہ بےبس تھا۔ سارا سارا دن چناب کے کنارے بیٹھا لہریں گنتا اور سوہنی کو یاد کرتا رہتا۔ وہ سوہنی کے غم میں اِس قدر نڈھال ہوا کہ اپنا خیال رکھنا ہی چھوڑ دیا۔ بکھرے بال، داڑھی بڑھ گئی اور ایسی حالت کر لی کہ مچھیرے اُسے کوئی پہنچا ہوا فقیر سمجھنے لگ گئے۔ اُس نے بھی اصرار کرنے پر تعویز وغیرہ دینے شروع کر دیے اور مزے کی بات یہ کہ اُس کے تعویز کام کرنے لگے اور یوں مچھیروں میں اُس کی عزت بڑھنے لگی۔ ایک مچھیرا روزانہ اُسے مچھلی لا کر دینے لگا جسے مہینوال پکا کر کھا لیا کرتا تھا۔
اِدھر سوہنی کی شادی ہوگئی مگر دل سے مہینوال کی محبت نہ نکال سکی۔ وہ بھی کروٹ کروٹ ہجر کے دہکتے انگاروں پر لوٹتی تھی۔ آخر ایک دن جدائی کی تڑپ سے بےحال ہو کر اپنی ایک سہیلی کے ذریعے مہینوال کو خط لکھ بھیجا۔ اُدھر مہینوال جو کہ عرصہ دراز سے محبوب کی فراق میں آدھا ہوا جا رہا تھا، چٹھی پا کر خوشی سے جھومنے لگا۔ پھر کیا تھا دونوں کے بیچ خطوں کا تبادلہ ہونے لگا۔
پھر محبت کی آگ مزید بھڑکی تو دونوں نے ملنے کا پلان بنا لیا اور یوں ایک دن مہینوال دریا کے تندو تیز موجوں کو چیرتا ہوا چناب کے اِس پار اُتر آیا اور دونوں نے کچھ پلوں کے لیے ہی سہی مگر جدائی کو مات دے دی۔ دونوں ایک دوسرے سے صدقے واری ہو رہے تھے۔ مہینوال گھر سے مچھلی بنا کر لاتا اور سوہنی مہینوال کے ہاتھ کی بنی مچھلی کھاتی اور محبوب سے ڈھیروں باتیں کیا کرتی۔
ایک دن جب مہینوال واپس جانے لگا تو سوہنی سے پوچھا کہ اب کب آؤں تو سوہنی نے جھٹ سے جواب دیا کہ کل ہی آنا۔ مہینوال نے خوشی سے جواب دیا کہ کیوں نہیں سوہنی، میں ضرور آؤں گا اور اگلے دن موسم نے بہت بری طرح سے انگڑائی لی اور موسلا دھار بارش سروع ہوگئی جس کی وجہ سے مچھیرا اُس دن مہینوال کو مچھلے دینے نہ آ سکا۔ مہینوال نے سوہنی سے ملنے کا وعدہ کیا تھا تو اُسے کچھ اور تو نہ سوجھا تو اُس نے اپنی ٹانگ کی ایک بڑی بوٹی نکال لی اور اُس کا گوشت بنا کر سوہنی کے لیے لے گیا۔ اُسے ایسا کرنے سے تکلیف تو بہت ہوئی مگر محبت کے آگے یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ زخم کی وجہ سے وہ بڑی مشکل سے دریا پار کر سکا تھا۔
جب سوہنی نے بوٹی منہ میں ڈالی تو واپس نکالتے ہوئے بولی کہ یہ کیا ہے مہینوال؟ یہ مچھلی کا گوشت تو نہیں ہو سکتا۔ مہینوال نے کہا کہ نہیں سوہنی اصل میں مچھلی کئی طرح کی ہوتی ہے تو آج کی مچھلی کا ذائقہ ہی ایسا ہے۔ مگر سوہنی نہ مانی اور ضد کرنے لگی کہ اُسے سچ بتایا جائے اور یوں مہینوال کو سوہنی کی ضد کے آگے ہار ماننا پڑی اور جب سوہنی نے مہینوال کی زخمی ٹانگ دیکھی تو اُس کے تو رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے۔ اُس نے تازہ پٹی کر دی اور مہینوال کو کوسنے لگی کہ کیا ضرورت تھی یہ سب کرنے کی اور مزید کہا کہ اب اُسے دریا پار کرکے آنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اُس کا زخم بہت گہرا ہے اور اب سوہنی دریا پار کرکے اُس سے ملنے آ جایا کرے گی۔
سوہنی نے دریا پار کرنے کے لیے ایک گھڑا مختص کر لیا اور وہ اُسی گھڑے کی مدد سے رات کو جب سب سو جایا کرتے تھے تو چناب کی بپھرتی لہروں سے جنگ لڑتی دریا پار کرکے مہینوال سے ملنے چلی جاتی تھی۔ لیکن اِسے سوہنی کی بدقسمتی کہیے کہ یہ راز سوہنی کی نند کے آگے ظاہر ہوگیا تھا۔
ایک دن جب سوہنی گھر سے نکلی تو اُس کی نند بھی پیچھے پیچھے ہو لی۔ اور پھر جب سوہنی نے دریا کنارے ایک جھاڑی سے گھڑا اُٹھا کر دریا میں کودی تو تب اُس کی نند سارا کھیل سمجھ گئی۔
پھر بعد میں اُس کی نند نے سوہنی کو بہلا پھسلا کر کچھ دنوں کے لیے اُسے مائیکے بھیج دیا۔ جب سوہنی واپس آئی تو رات کو اُٹھی اور محبوب سے ملنے کے لیے گھر سے نکل گئی۔ جھاڑی کے پاس پہنچ کر جب گھڑا نکالا تو اُسے ایک عجیب احساس نے جکڑ لیا، چونکہ وہ خود ایک کمہار کی بیٹی تھی تو سمجھ گئی کہ یہ پکا گھڑا نہیں ہے اور دوسرا وہ تو اپنے گھڑے کے لمس سے بھی اچھی طرح واقف تھی۔
گھڑا دیکھ کر وہ اپنی نند کی ساری سازش اور کھیل کو سمجھ گئی تھی۔ نند کا بچھایا ہوا سارا جال کھل کر سامنے آ گیا تھا۔
عقل، محبت کے دلائل کے آگے بےبس ہو جایا کرتی ہے۔ سوہنی کے ساتھ بھی محبت نے وہی کیا۔ ایک طرف محبوب سے وصل کا وعدہ، دوسری طرف گرجتے بادل، چمکتی بجلی اور چھم چھم برستا زور کا مینہ جس سے پانی کی لہروں میں طغیانی آچکی تھی۔
عقل کہنے لگی کہ گھڑا کچا ہے، آدھے راستے ہی دھوکہ دے جائے گا۔ بےموت ماری جاؤ گی تو عشق دلیل دینے لگتا کہ محبت والے ہر رکاوٹیں پار کر جاتے ہیں۔ وہ کسی مصیبت یا خوف سے گھبرایا نہیں کرتے۔
کچھ دیر عشق اور عقل کی جنگ چلتی رہی اور عشق جیت گیا۔ سوہنی نے بآواز بلند کہا کہ مہینوال میں آ رہی ہوں اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ آگے آپ تصور کی آنکھ سے سب دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے کچے گھڑے کو تیز لہروں نے توڑا ہوگا اور کیسے سوہنی بپھری لہروں کے آگے بےبس ہوئی ہوگی۔
دوسری طرف مہینوال بھی یہ کہتے ہوئے دریا میں کود گیا تھا کہ سوہنی میں بھی آ رہا ہوں اور بعد میں دونوں کے لاشیں اکٹھی ہوگئیں تھیں جنہیں بعد میں چناب سے نکالا گیا تھا۔
یوں سوہنی مہینوال کی محبت اپنے آخری اختتام کو پہنچی مگر ہمیشہ کے لیے اَمر ہوگئی۔ وہ لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ سوہنی مہینوال کی محبت نے یہ ثابت کیا کہ عقل اور عشق کے دلائل میں جیت ہمیشہ عشق کی ہوا کرتی ہے۔