Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Azhar Hussain Bhatti/
  4. Ishq Nahi Manta Aqal Ki Daleelon Ko (1)

Ishq Nahi Manta Aqal Ki Daleelon Ko (1)

عشق نہیں مانتا عقل کی دلیلوں کو (1)

اِس لازوال محبت کی کہانی نے گجرات کی سر زمین پہ جنم لیا۔ وہ زمین کہ جہاں محبت کے پھول بوٹے کھلتے ہیں، جہاں کی ہوائیں محبوب کے لیے پیار بھری بولیاں گاتی ہیں۔ وہیں بخارا کے ایک نوجوان سوداگر عزت بیگ نے جب یہاں قدم رکھا تو ایک طرف چناب کا تیز دھار بہتا پانی، شرارتیں کرتیں لہریں اور دوسری طرف سر سبز لہلہاتے کھیت اور آنکھوں کو ٹھنڈک بخشتے خوبصورت نظارے تھے۔

عزت بیگ پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ اِس قدر حسین اور دل کو لبھانے والی سر زمین کا نام کیا ہے؟ تو جواب ملا کہ اِس عشقِ سرزمین کو گجرات کہتے ہیں۔ جہاں محبتیں پھوٹتی ہیں۔ دل گھائل ہوتے ہیں۔ عزت بیگ نے گجرات کی شادابی و خوبصورتی سے متاثر ہو کر وہیں ایک سرائے میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک کامیاب سوداگر تھا۔ پیسوں کی ریل پیل تھی تو جب جی مچلا تو سرائے کے مالک کو بلا کر محفل کا اہتمام کرنے کا کہا اور مزید یہ بھی کہ روپے پیسوں کی بالکل فکر نہ کی جائے۔

سرائے کے مالک نے سارا انتظام کر دیا۔ ساری رات عزت بیگ اور اس کے دوست محفل سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ابھی سب سو رہے تھے کہ صبح صبح ہی عزت بیگ کو اُس کا نوکر تلے کمہار کی دکان پر لے گیا جہاں اُس کی بیٹی سوہنی آنے والے گاہکوں کو سامان دکھانے میں مصروف تھی۔

اُبھرتا گورا شباب، سیاہ کاجل سی بھری آنکھیں، ہرنی سی چال اور کشمیری سیبوں جیسے رخسار اور چہرے کو نظرِ بد سے بچانے کے لیے چمکتا ہوا سیاہ تِل سوہنی کو اِتنا سوہنا بنا رہا تھا کہ وہ سوہنی کہلائے جانے کے قابل لگے۔ آئینہ وہ دیکھے جسے سجنا سنورنا ہو، وہ تو تھی ہی اِتنی سوہنی کہ جو دیکھتا تھا، آنکھیں جھپکنا بھول جاتا تھا۔ اُسے دیکھتے ساتھ ہی عزت بیگ کے دل میں محبت کے شعلے بھڑک اُٹھے۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ دل کو اُس مرض نے جکڑ لیا ہے کہ جس کا علاج سوائے محبوب کی باہوں کے اور کچھ نہیں ہوا کرتا۔

اِدھر عزت بیگ دل کا مریض بن گیا تھا اور اُدھر اُس کے دوستوں نے اب واپسی کے لیے اصرار تیز کر دیا تھا۔ عزت بیگ کو کوئی ہوش نہیں تھا۔ اُس نے سوہنی کے دیدار کے لیے گجرات میں ہی کاروبار کرنا شروع کر دیا تھا۔ کاروبار کیا تھا، سوہنی کے والد تلے کمہار سے ہی برتن لیکر بیچنے لگا تھا تاکہ اسے کاروبار کے بہانے سے سوہنی کے چاند سے چہرے کا دیدار نصیب ہوتا رہے۔

عزت بیگ کا یہ دیوانہ پن اُس کے دوستوں کو بڑا کھٹک رہا تھا اور اِسی لیے وہ ایک رات عزت بیگ کا سارا پیسہ اور سامان لیکر فرار ہو گئے۔ عزت بیگ جب صبح اُٹھا تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ اِس شہر میں اب اکیلا رہ گیا ہے اور جیب میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں بچی۔ وہ بہت رویا کہ سرائے کا کرایہ بھی دینا ہے، تلے کمہار سے جو سامان لیتا تھا اُس کا قرض چکانا بھی ابھی باقی ہے۔ لیکن اب سوائے پچھتانے کے اور کیا بھی کیا جا سکتا تھا۔

وہ کچھ دن ایسے ہی پریشانی کے علم میں حواس باختہ پھرتا رہا اور پھر جانے کیا سوچ کر تلے کمہار کے دروازے پر چلا گیا۔ اُسے اپنی ساری روداد کہہ ڈالی اور کام مانگنے لگا۔ تلے کمہار نے ساری کہانی سنی اور ترس کھاتے ہوئے اُسے گھر کا نوکر رکھ لیا۔ عزت بیگ کو اور کیا چاہیے تھا، سوہنی کے گھر رہ کر وہ ہر وقت سوہنی کا دیدار کر سکتا تھا اور یوں اُسے یہ سودا گھاٹے کا سودا نہ لگا۔

وہ دن رات سوہنی کے گھر کے کام کرتا، جھاڑو لگاتا، کوڑے کا ٹوکرا سر پہ اُٹھائے باہر پھینکنے جاتا۔ بازار سے سودا سلف لا دیتا۔ اس طرح وہ عزت بیگ سے کب مہینوال بنا، اُسے خود بھی پتہ نہ چلا۔ وہ گجرات میں مہینوال کے نام سے مشہور ہونے لگا۔ تلے کمہار کو روٹی کپڑے کی بدولت اِتنا کام کرنے والا محنتی نوکر مل گیا تھا تو اُس نے مہینوال کی محنت کو دیکھتے ہوئے اُسے بھینسوں کے کام پر بھی لگا دیا تھا۔ اُس نے باہر کھیتوں میں بھی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔

روٹی کبھی کوئی لیکر آتا تو کبھی کوئی۔ یوں تلے کمہار کے گھر کام کرتے ہوئے مہینوال کو سال گزر گیا مگر وہ ابھی تک سوہنی کے دل کو چھو بھی نہیں سکا تھا۔ ایک دن اِنہیں خیالوں میں مہینوال اِتنا کھویا کہ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اُس دن اُس کی روٹی سوہنی لیکر آئی تھی۔ وہ پہلے جانے کتنی ہی دیر تک مہینوال کو ایسے دیکھتی رہی اور مہینوال کو بھی سوہنی کے آنے کا پتہ تک نہیں چلا۔

کیا ہوا ہے تجھے مہینوال؟ کیا گھر والوں کی یاد ستا رہی ہے؟ سوہنی مہینوال کے آگے روٹی رکھتے ہوئے بولی۔ بس پھر کیا تھا مہینوال کو تو جیسے بات کرنے کا موقع مل گیا اور اس نے دل کی ساری باتیں کہہ ڈالیں کہ میں بخارا کا سوداگر ہوں، گھر بار ہے، نوکر چاکر ہیں، دولت کی ریل پیل ہے مگر صرف تمہاری محبت کی خاطر میں یہاں نوکروں والی زندگی گزار رہا ہوں مگر تم ہو کہ دل پتھر کیے بیٹھی ہو۔ یہ سب سننا تھا کہ چوٹ سیدھی سوہنی کے دل پر لگی اور وہ پوچھنے لگی کہ کیا سچ میں ایسا ہی ہے مہینوال؟ تم یہ سب میری محبت میں کر رہے ہو؟ تو مہینوال نے سوہنی کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ ہاں سوہنی یہ سچ ہے۔ میں صرف تمہاری چاہ میں گجرات میں رُکا ہوا ہوں۔

اور یوں سوہنی نے مہینوال کی محبت کو اپنے دل کی راہ دکھا دی اور اُن دونوں کی محبت پروان چڑھنے لگی۔ سوہنی مہینوال کے لیے مستقل روٹی لانے لگی اور جب دیر سے گھر لوٹتی تو نئے نئے بہانے تراشتی اور کسی حد تک ماں باپ کے شکوک و شبہات کو دور کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتی لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ بات پھیلنے لگے تو بہت دور تک جاتی ہے۔ سوہنی مہینوال کی محبت کے خوشبو اب پورے گجرات میں پھیل چکی تھی۔ جب بات بہت آگے بڑھی تو تلے کمہار نے مہینوال کو بےعزت کرکے گھر سے نکال دیا اور گاؤں والوں نے سزا کے طور پر مہینوال کو چناب کے اُس پار بھیج دیا۔

مہینوال چناب کے پار گیا تو اِدھر جدائی کا سنسناتا ہوا تیر بھی سوہنی کے نرم وجود کے پار ہوگیا۔ وہ محبوب سے بچھڑنے کے غم کی تاب نہ لا سکی اور گھر والوں سے لڑنے اُلجھنے لگی کہ یہ تم لوگوں نے اچھا نہیں کیا۔ گھر والوں کو جلی بھنی خوب سنا کر وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔

اِدھر تلے کمہار اور اس کی بیوی نے مشورہ کیا کہ اب سوہنی کی شادی کر دینی چاہیے اور یوں سوہنی کے لاکھ منع کرنے کے باوجود ایک دوسری کمہار فیملی میں سوہنی کی شادی طے کر دی گئی اور دلہے کے گھر شادیانے بجنے لگے۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Ye Hath Sirf Likhte Nahi

By Amirjan Haqqani