Hamara Dimagh Bohat Siana Hai
ہمارا دماغ بہت سیانا ہے
فرض کریں کہ آپ ایک لوکل بس میں سفر کر رہے ہیں۔ کوئی شخص آپ کو اپنا ایک بیگ دے کر کہتا ہے کہ پلیز کچھ دیر کے لیے اِسے اپنی گود میں رکھ لیں تو آپ ازراہِ مروت وہ بیگ اپنی جھولی میں رکھ لیتے ہیں۔
آپ پانچ، دس منٹ یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے تک اُس بیگ کا وزن برداشت کرتے ہیں اور اُس کے بعد بیگ، مالک کو واپس کرتے ہوئے بولتے ہیں کہ بھائی یہ رہا آپ کا بیگ۔ خود ہی سنبھالیں اور پھر دوبارہ آرام سے اپنی سیٹ پر براجمان ہو جاتے ہیں۔
اب ہم سیچوئیشن بدلتے ہوئے آپ کے گود میں بیگ کی بجائے ایک بےحد حسین لڑکی کو بٹھا دیتے ہیں اور پھر انتظار کرتے ہیں کہ آپ کو کب اِس خوبصورت لڑکی کا وزن گراں گزرتا ہے؟ لیکن آپ اپنی منزل پہ پہنچنے تک خاموش رہتے ہیں اور لڑکی کو واپس کرنے کی یا اُسے آپ کی گود سے اُٹھانے کی کوئی بات نہیں کرتے۔
ایسا کیوں ہوا؟ جواب بہت سادہ ہے، کہ ہمارا دماغ بہت سیانا ہے۔ بیگ سے اُس کا کوئی لینا دینا نہیں تھا جبکہ صنفِ مخالف سے دماغ نے جسم تک کوئی ایسا سگنل بھیجا ہی نہیں کہ جس سے جسم تھکاوٹ محسوس کر سکے۔ دماغ اچھی طرح جانتا تھا کہ گود میں اب کون بیٹھا ہے۔ اِسی لیے تھکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔
دوسری مثال کی جانب بڑھتے ہیں۔ کسی ایک ہی شخص سے ہم بےپناہ محبت کا دعوی کرتے ہیں۔ اُسے اِس قدر چاہ رہے ہوتے ہیں کہ دن رات بس محبوب کے خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ لیکن اگر ہم اُسی محبوب کو کسی اور کے ساتھ غیر حالت میں دیکھ لیں تو پھر؟ یقیناً ہم ایک دفعہ ہل کے رہ جاتے ہیں۔ اور اُسی محبوب سے اِس گھٹیا حرکت کی وجہ سے شدید نفرت کرنے لگتے ہیں۔
کسی ایک ہی شخص سے بےپناہ محبت اور اُسی ایک شخص سے شدید نفرت۔۔ بدلا کیا؟"صرف سوچ"۔
ہم جو کام بھی کرتے ہیں یا سوچتے ہیں سب ہماری سوچوں پہ منحصر کرتا ہے۔ دنیا میں جتنی ایجادات ہوئیں ہیں وہ سب بھی پہلے دماغ میں ایک خیال بن کر ابھری تھیں۔ ایک سوچ جنم لیتی ہے جو کہ بعد میں پھلتے پھولتے ایک قد آور درخت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
ہمارے ذہن میں خیال یا سوچ کی پھوٹتی کونپل کو کونپل ہی رہنے دینا ہے یا تناور درخت بنانا ہے، اِس کا فیصلہ ہم خود کرتے ہیں۔ سوچوں کے پیچھے بھاگنا ہے یا نظر انداز کرنا ہے یہ سارا ہم پہ منحصر کر رہا ہوتا ہے۔
کوئی پریشانی آ گئی ہے تو کب تک پریشان رہنا ہے؟ کوئی خوشی مل گئی ہے تو کتنے دنوں تک خوش رہنا ہے یہ سارے فیصلے ہمارے اپنے اختیار میں ہوتے ہیں۔
سائیکالوجی کے مطابق ہمارے ساتھ اگر کوئی بڑا حادثہ پیش آ جاتا ہے یا ہمارا کوئی مر جاتا ہے تو کسی بھے سانحے کا جھٹکا صرف پندرہ سے بیس منٹ تک رہتا ہے اُس کے بعد صرف ہماری سوچیں ہی ہمیں اُس سانحے کی طرف راغب کرتی ہیں یا ہم پہ اثر انداز ہوتی ہیں۔
تو خود کی سوچوں کو لگام دینا سیکھیں وگرنہ یہ سوچیں جب تیز بھاگتی ہیں تو ہمارے لیے کافی مشکلات پیدا کر دیتی ہیں۔