Dil Ka Sartan
دل کا سرطان
کیا آپ جانتے ہیں کہ اِس کائنات کا پہلا گناہ کیا تھا؟ کچھ لوگوں کے ذہن میں ہابیل اور قابیل کا واقعہ آتا ہے یعنی پہلا گناہ قتل تھا، لیکن نہیں، اِس کائنات کا سب سے پہلا گناہ قتل نہیں بلکہ تکبر تھا، جب شیطان نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ اِس کائنات کا پہلا موذی مرض یہی تھا، تکبر یعنی دل کا سرطان۔ شیطان نے خود کو آدم سے بہتر جانا اور اللہ کے حکم کو نہ مانتے ہوئے آگے سے دلیلیں گھڑنے لگ گیا کہ میں اِس سے بہتر ہوں اور یوں تکبر نے شیطان کی زندگی کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔
تکبر بہت بُرا ہوتا ہے۔ یہ انسان کو پتھر دل بنا دیتا ہے۔ انسان خود کو ہر دوسرے انسان سے بہتر اور برتر سمجھنے لگتا ہے۔ سب کمتر اور حقیر لگنے لگتے ہیں۔ تکبر کرنے والا انسان اپنے رویوں اور لہجوں کی کاٹ سے دوسروں کو تکلیف دینے سے بھی ذرا نہیں ہچکچاتا۔ اگر اِس کا علاج جلدی نہ کیا جائے تو یہ مرض جان کا روگ بن کے رہ جاتا ہے۔ ہمارے دین میں تکبر حرام ہے اور اِس کا عذاب اِس قدر سخت ہے کہ ہمارے رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ
"وہ شخص ہرگز جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا۔ (صحیح مسلم: 91)
یعنی یہ اس قدر بڑا گناہ ہے کہ تکبر والا انسان جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا اور اِس گناہ سے اللہ اور رسولؐ بھی ناراض ہونگے۔ تو کون اللہ اور رسولؐ کی ناراضگی مول لے سکتا ہے۔ اِسی لیے تکبر جیسے بُرے گناہ سے بچنا چاہیے۔ ایسے گناہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔
ایک اور جگہ رسول اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ
"کیا میں تم کو بتاؤں کہ جہنمی کون ہے، ہر اُکھڑ، بد خو اور مغرور شخص۔ (صحیح البخاری: 4918)
آج کے اِس دور میں یہ تکبر ہوا کی طرح پھیلا ہوا ہے۔ خودداری کے نام پہ ہم عاجزی سے کوسوں دور ہو گئے ہوئے ہیں۔ کسی کو سلام کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتے۔ نوکروں، ملازموں، اور رشتہ داروں سے ایک لمٹ کے اندر رہ کر بات کرتے ہیں اور لہجے میں چاشنی نہیں ہوتی کیونکہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ عاجزی یا پیار سے بات کرنے سے اگلا فرینک ہو سکتا ہے۔ اِسی ڈر سے ہم نے خود کو تکبر نامی دیواروں میں چُنوا دیا ہوا ہے۔
ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی جنت میں نہ جانے والی حدیث کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں۔ کوئی خوف یا ڈر دل میں محسوس نہیں کرتے اور یہی ہماری پستی اور پسپائی کی وجہ ہے۔ ہمارے وجود کو تکبر کی نہیں بلکہ عاجزی و انکساری کی سخت ضرورت ہے۔ ہمیں خود کو کسی سے برتر نہیں سمجھنا چاہیے۔ خود کو اللہ کی نظر میں حقیر جاننا چاہیے۔
یہ سوچنا چاہیے کہ جس خوبی کی وجہ سے میں خود میں تکبر محسوس کر رہا ہوں وہ خوبی میرے اللہ کی وجہ سے ہے اور ہو سکتا ہے کہ میرے تکبر کی وجہ سے یہ خوبی اللہ مجھ سے چھین بھی لے۔ ہم جس کو حقیر سمجھ رہے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کی نظر میں بہت قدر، اونچی شان اور مرتبے والا ہو۔ نئے جوڑے، قیمتی جوتے پہن کر بھی عاجزی سے ہی پیش آنا چاہیے اور اگر ایسا پہننے اوڑھنے سے دل میں تکبر پیدا ہونے لگے تو یہ سب چھوڑ دینا چاہیے۔
ہمارا مقصد بس اللہ اور اُس کے رسولؐ کی خوشنودی ہونا چاہیے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔