Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Bhatti
  4. Depression Maut Hai

Depression Maut Hai

ڈیپریشن موت ہے

جنوری کا مہینہ تھا، شام سے پہلے ہی دھند پھیل جایا کرتی تھی۔ ایسے ہی کسی ٹھٹھرتی شام کو میرا ایک دوست مجھے کسی جنازے پر لے گیا۔ مرنے والا ستائیس سال کا جوان لڑکا تھا۔ شادی شُدہ تھا اور اُس کی ایک بیٹی بھی تھی۔ جنازہ پڑھ کے فارغ ہوئے، تو اِس بات کا علم ہوا کہ لڑکے نے خُود کشی کی ہے۔ یہ سُن کر مجھے حیرت کا مزید جھٹکا لگا کہ جوانی کی عمر اور ایک بیٹی کے ہوتے ہوئے بھی آخر ایسا کیا ہوگیا کہ نوبت خُودکشی تک آ گئی تھی۔

معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ماں اور بہنوں کو لڑکے کی بیوی بالکل پسند نہیں تھی اور وہ دِن رات لڑکے کو طنز اور طعنے مارتی رہتی تھیں۔ کبھی رن مُرید کے لقب سے نوازا جاتا تو کبھی طلاق دینے کی فرمائشیں کیں جاتیں۔ لڑکا بہت کہتا کہ میں ایک بیٹی کا باپ ہوں اور میری بیوی بھی کسی باپ کی بیٹی ہے۔ تو میں کیوں بغیر کسی وجہ کے کسی کی بیٹی کے ماتھے پہ طلاق کا ٹھپہ لگا دوں اور طلاق دے کر اپنی بیٹی سے بھی دور ہو جاؤں۔

وہ اپنی ماں سے کہتا کہ آپ میری ماں ہیں۔ آپ کی عزت کرنا میرا فرض بنتا ہے۔ تو اگر آپ کو غصہ آ بھی جاتا ہے، کسی بات پر تو آپ مجھ پر نکال لیا کریں۔ لیکن ماں کو ترس نہ آیا اور یوں وہ لڑکا ڈیپرشن یعنی ذہنی تناؤ میں دھنستا چلا گیا۔ دِن رات کی اذیت اور سوچوں کی یلغار نے اُس کو پوری طرح سے خاموش کر دیا تھا۔ اور آخرِ کار ڈیپریشن نے اُس کی جان لے لی۔ بلاشبہ ڈیپریشن آج کے دور کی سب سے بڑی بیماری بن چکی ہے۔

اور ڈیپریشن کی پہلی بڑی وجہ اللہ سے دوری ہے اور دوسری بڑی وجہ بڑے افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے کہ ہمارے قریبی رشتے دار ہوتے ہیں۔ آپ آج کے دور میں کسی بھی فرد سے بات کرکے دیکھ لیں، وہ آپ کو ڈیپریشن میں ضرور ملے گا۔ ڈیپریشن کی وجہ سے اگر کوئی خُود کشی کرتا ہے۔ تو وجہ کوئی اور نہیں بلکہ گھریلو ناچاقیاں، پریشانیاں اور اپنوں کے طنز طعنے اور مسلسل دی جانے والی اذیت ہی ہوتی ہے۔

اپنوں پہ کڑی نظر رکھیں، کوئی پریشان دکھائی دے تو فوراً اُس سے بات کریں، اور پریشانی کی وجہ معلوم کریں، اور اسے احساس دلائیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ آج کے دور میں ہر انسان اِس قدر مصروف ہوگیا ہوا ہے کہ اُسے اپنوں کو بھی دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ چند منٹس کی ملاقات اور پیار کے دو بول کسی کو بڑا فیصلہ لینے سے روک سکتے ہیں۔ آپ کسی اپنے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھونے سے بچ سکتے ہیں۔

اپنے تمام رشتوں کو وقت دیں، اُنہیں پیار دیں اُنہیں اِس بات کا یقین دلائیں کہ زندگی میں ہو جانے والی کوئی بھی غلطی، ناراضگی یا لڑائی۔ اِس حد تک بڑی نہیں ہوتی کہ اُس کی خاطر اپنی جان ہی لے لی جائے۔ معاملات کو مِل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ناں کہ

" اگر آپ نے کسی ایک انسان کی جان بچائی تو گویا آپ نے پوری انسانیت کی جان بچائی"۔

تو آپ بھی کسی کو خُود کشی کرنے سے روک سکتے ہیں، اُسے بچا سکتے ہیں۔ اور سب سے بہتر خُود کو روکنا ہے۔ اِس بُرے عمل سے۔ آپ چاہے ڈیپریشن کے جس مرضی لیول پر پہنچ جائیں۔ لیکن یہ کبھی نہ بھولیں کہ آپ کا اللہ آپ کے ساتھ ہے۔

اِس حوالے سے مجھے سورۃ توبہ کی ایک آیت یاد آ گئی ہے۔ جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ "کافی ہے مجھے اللہ، نہیں معبود سوائے اُس کے۔ اُسی پر میرا توکل ہے اور وہ رب ہے عرشِ عظیم کا"۔

کیا آپ نے نہیں پڑھا کہ حضرت ایوبؑ اور حضرت یعقوبؑ نے کس حد تک صبر کیا تھا۔ وہ تب ڈیپریشن میں کیوں نہیں گے تھے، تو جواب یہی ملے گا کہ اُنہوں نے اپنے اللہ پہ توکل کیا تھا۔ اُس پہ بھروسہ تھا، اُنہیں کہ وہ جو بھی کرے گا، اُن کے لیے بہتر ہوگا۔ تو ہمیں بھی صبر سے کام لینا چاہیے۔ اگر ذہنی تناؤ بڑھ رہا ہے، تو سجدے میں چلے جائیں اور اللہ سے سکونِ قلب کی دعا کریں۔ وہ رحیم و کریم ہے۔ ہماری دعا ضرور قبول فرمائے گا۔

آج کے دور میں ہر رشتہ ڈیپریشن میں مبتلا کر رہا ہے۔ کہیں دولت بےسکونی کی وجہ بن رہی ہے، تو کہیں بےجا خواہشات ذہنی دباؤ کا سبب بن رہی ہیں۔ کوئی اُمیدوں کے ٹوٹ جانے کا رونا رو رہا ہے، تو کوئی تلخ لہجوں کی کاٹ سے زخمی ہو رہا ہے۔ میری نظر میں ڈیپریشن سے بچنے کا حل صرف اللہ توکل ہے۔ اُسی پہ بھروسہ رکھیں۔ معاف کرنا شروع کر دیں۔ محبت بانٹنا سیکھ جائیں تو ڈیپریشن جیسی موذی مرض سے چھٹکارہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ خُود کو اور کسی اپنے کو کھونے سے بچایا جا سکتا ہے۔

Check Also

Time Magazine Aur Ilyas Qadri Sahab

By Muhammad Saeed Arshad