Aap Ki Taleem Kya Hai?
آپ کی تعلیم کیا ہے؟
تعلیم کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ ہمارا اسلام بھی تعلیم حاصل کرنے پر بہت زور دیتا ہے۔ تعلیم ہمیں تمیز، تہذیب اور زندگی کو بہتر سے بہتر انداز میں جینے کا گُر سکھاتی ہے اور ہماری شخصیت کو نکھارتی ہے ہمیں مہذب بناتی ہے۔
لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تعلیمی اداروں کی مہیا کردہ ڈگریوں کو ہی تعلیم سمجھ لیا ہے اور اِنہیں سَندوں اور کاغذی ڈگریوں کے پیچھے ہی بس بھاگے چلے جا رہے ہیں۔ اِس چیز سے بےخبر اور غافل کہ تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد کیا ہے؟ ہم صرف نمبروں میں اور پہلی پوزیشن کی ریس میں لگ چکے ہیں۔ جب مجھ سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ کی تعلیم کیا ہے تو میں بتا دیتا ہوں کہ جی میں جھوٹ نہیں بولتا، لڑائی نہیں کرتا، میں صبر کر لیتا ہوں، معاف کر دیتا ہوں۔
ہمیں ایسی تعلیمات کی بہت اَشد ضرورت ہے جس میں معاشرے کی اصلاح اور بھلائی کا پہلو نکلتا ہو۔ اب اگر کچھ منفی پہلو کی بات کریں تو ہم میں برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ مہمانوں سے ہماری جان جانے لگی ہے۔ کسی کی بات بالکل برداشت نہیں ہوتی۔ معاف ہم لوگ نہیں کرتے۔ دلوں کو بغض سے بھرا ہوا ہے۔ بات کرتے ہیں تو اگلے کو اپنے لفظوں کی کاٹ سے چھلنی کر دیتے ہیں۔ لہجوں سے تلخی اور طنز کے نشتر چلاتے پھرتے ہیں۔ کسی کو خُوش دیکھتے ہیں تو جل بھن جاتے ہیں۔ مدد ہم لوگ نہیں کرتے۔
اخلاق کی پستیوں میں گِر چکے ہیں۔ کسی بھوکے کو کھانا ہم نہیں کھلاتے۔ ہمسائیوں کے حقوق کا ہمیں پتا نہیں ہے؟ ماں باپ کی عزت ہم نہیں کرتے۔ رشتہ داروں سے حُسن سلوک رکھنا ہمیں یاد نہیں ہے۔ اُن سے ہم ملتے بھی نہیں ہیں۔ اولاد کو نیک تربیت ہم نہیں دے رہے۔ اُن کے مستقبل تباہ ہو رہے ہیں لیکن ہم بُت بنے تماشا دیکھ رہے ہیں۔ خُدا ترسی کو کب کا بھول چکے ہوئے ہیں۔ صدقہ زکوۃ ہم دیتے نہیں ہیں۔ نمازِ جنازہ ہمیں آتا نہیں ہے۔ قُرآن کو ہم تب کھولتے ہیں جب کوئی مرنے والا ہوتا ہے یا مر چکا ہوتا ہے۔
کہاں ہیں ایسی تعلیم اور کیا ہم ایسی تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے ہماری نوجوان نسل کو ایسی ترغیب اور اِن تمام چیزوں کی تعلیمی ڈگریاں دے رہے ہیں۔ ہمیں کاغذی ڈگریوں کی نہیں عملی کاموں کی ضرورت ہے۔ ہمیں لوگوں کی آواز سے مطمئن نہیں ہونا بلکہ اپنے ضمیر کی آواز سے مطمئن ہونا ہے۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ضمیر بھی مردہ ہو چکے ہیں اور ضمیر کی آوازیں بھی منوں مٹی تلے کب کی دب چکی ہوئی ہیں۔
ہماری آج کی تعلیم میں اخلاق کہیں نظر نہیں آتا۔ کسی پڑھے لکھے انسان سے بات کرنی پڑ جائے تو اُس کے لہجے میں تکبر اور غرور چھلکتا ہوا صاف نظر آتا ہے۔ بجائے اِس کے کہ وہ نہایت ادب یا عاجزی سے پیش آئے۔
ہمارا تعلیمی نظام کس قدر نیچے گِر چکا ہوا ہے یہ بات تو اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ جانے کب ہم ایک باشعور قوم کے طور پر اُبھریں گے؟
جانے کب؟