Munfarid Shaira Mujahida Hassan Manto, Aik Qarz Tha Mere Zimmay
منفرد شاعرہ مجاہدہ حسن منٹو، ایک قرض تھا میرے ذمے
انگریزی زبان کی منفرد شاعرہ مجاہدہ حسن منٹو ایڈورٹائزنگ انڈسٹری میں مسز حسن کے نام سے جانی جاتی تھیں۔ میں 90 کی دھائی کے ابتدائی دو سال بلیزون ایڈورٹائزنگ میں ملازم رہا۔ آپ یہاں کریٹیو ڈائریکٹر ہوا کرتی تھیں اور میں آپ کی ماتحتی میں کام کیا کرتا تھا۔ مجاہدہ حسن منٹو بھرپور تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ملکوتی حسن کی مالک تھیں۔ اس لیے شخصیت کا اثر بہت سحر انگیز تھا۔ یہ امتزاج ذرا کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ جب وہ کسی میٹنگ میں گفتگو کرتیں تو سماں بندھ جاتا اور ہم جیسے مبتدی انہیں سنتے رہتے۔ خوش مزاج و رحم دل تھیں۔ بہت خاموشی سے فلاحی کام بھی انجام دیا کرتی تھیں۔
مجاہدہ حسن منٹو مشہور آرکیٹیکٹ جناب عارف حسن کی اہلیہ تھیں جو یقینی طور پر ایک قابل احترام حوالہ ہے۔ تاہم وہ اپنے تخلیقی اوصاف کے حوالے سے ایک الگ شناخت رکھتی تھیں۔ میں نے ان کی رہنمائی میں اپنے تخلیقی سفر کی کئی منازل طے کیں۔ کاپی رائٹنگ کے گر سیکھے۔ اسی لئے میں انہیں اپنا "گرو" کہا کرتا تھا۔ محفل میں ہوں یا میٹنگ میں، ہر جگہ "آپ مجھ کو نظر انداز نہیں کر سکتے" والا معاملہ ہوتا۔ بلا تفریق تمام افراد کے لئے لفظوں میں اخلاص کی مہک، لہجہ میں اپنائیت کی لہک اور ہنسی میں محبت کی کھنک ہوتی۔ میں ان کا ماتحت تھا جس کے تحت وہ مجھ سے گفتگو میں تو اور تم کا بے ساختہ استعمال کیا کرتیں جو آج بھی سوچتا ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے۔
مجاہدہ حسن منٹو نے ایک دو مرتبہ مجھ سے کہا: تو میری Poetry کا اردو میں ترجمہ کیوں نہیں کر دیتا۔ میں یہ سوچ کر کہ آفس کے کام کیا کم ہیں کہ یہ بھی اپنے سر لے لوں۔ دوسری بات یہ تھی کہ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ میں ان کے خیالات کو اردو کے قالب میں اس مفہوم کے ساتھ منتقل نہیں کر پاوں گا اور جتنا مجھے وہ قابل سمجھتی ہیں۔ میں اتنا ہی نا اہل ثابت ہوں گا۔
آپ کے انتقال کے کچھ روز بعد عافیہ سلام نے ان کی ایک مختصر انگریزی نظم شیئر کی تو مجھے لگا کہ مجاہدہ حسن منٹو کہہ رہی ہوں: اب تو تجھے یہ کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
ذیل میں ان کی اس انگریزی نظم کو اردو کے قالب میں ڈھال تو دیا ہے لیکن مجھے اپنی کم مائیگی کا پوری طرح اعتراف ہے۔ اس لئے پیشگی معذرت ہے۔ شعری اوزان و قواعد سے بھی واقفیت نہیں۔ بس اسے خراج عقیدت کے خانے میں رکھ دیجئے گا۔
My mind is tired
It shedding petals from grave
Instead of tears for life
I shared my tears
With ocean
And watched them
Mix with the waves
As they flowed towards the shore
The reason was lost
Forever
تھکن ذہن میں جاگزیں
لحد کی بند کوٹھری
آنسوؤں کی کوئی لڑی
کہیں نہیں، کہیں نہیں
خوشبوؤں میں ہے بسی
ہو جیسے کوئی پنکھڑی
مہک رہی ہو چار سو
میری قبر سے قریں
یہیں کہیں، یہیں کہیں
سمندروں کو دے دیئے
آنسوؤں کے سلسلے
لہر سے وہ جا ملے
ساحلوں سے جا لگے
اور پھر جو کھو گئے
ہوگئی ہمیشگی
سو گئی ہے زندگی
اور میں کہیں نہیں