Khandan Thay To Pandan Thay
خاندان تھے تو پاندان تھے
گزرے دنوں میں پان دان کیا تھا۔ پورا گھر ہوا کرتا تھا۔ تڑے مڑے نوٹ۔ اٹھنیاں۔ چونیاں۔ کٹے پٹے کاغذ۔ دوا کی گولیاں۔ ہرن چھاپ تمباکو۔ کٹی ادھ کٹی جھالیہ۔ کبھی بہت گیلا تو کبھی بہت سوکھا کتھا چونا جسے کھرچتے ہوئے ساس صاحبہ اپنی بہووں کو ہلکی آواز میں خوب ہی سناتیں اور اس کے ساتھ پاندان کی پوری تاریخ دھرانے لگتیں:
ارے جہیز کا ایسا پاندان تو اب ڈھونڈے سے بھی نہہں ملے گا۔ چھ مرتبہ قلعی کرایا پھر نیا سا نکل آیا۔ اب بھیا مجھ میں طاقت نہیں کہ بازار جا کر قلعی کراتی پھروں۔
خود کلامی کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جاتا اور بات کہیں سے کہیں نکل جاتی:
ارے خوب جانتی ہوں۔ ادھر میری آنکھ بند ہوئی اور یہ گیا اساٹور میں۔ اسلم کی بیوی کو تو خدا واسطے کا بیر ہے میرے پاندان سے اور میرے خاندان سے۔ اب کوئئی پوچھے اس سے، تیرا کیا بگاڑا ہے اس نے؟ ایک کونے پڑا رھوے ہے۔ تیرے جٹکی نوچے ہے کیا؟
پاندان کا ذکر ہو اور خریداری کی بات نہ ہو:
جب میری شادی کا جہیز آرہا تھا تو پھپھو رشیدہ نے کہا کہ پاندان تو میں لا کر دوں گی تو ثریا کو۔ لو بھیا، پھوپھا عنایت نکل پڑے بہتیری دکانیں چھان ماریں۔ تب کہیں جا کر ملا یہ پورے پانچ سیری کا پاندان۔ خدا جھوٹ نہ بلائے پھپھو نے سارے پیسے نکال لئے۔ ہمارے باوا بھی حساب کے کھرے تھے۔ اماں سے بولے: تجھے قسم ہے رضیہ جو تو نے ایک پیسہ بھی رکھا۔
شادی کے دوسرے دن جب میں چوتھی کرکے سسرال آئی تو ساس بولیں: اے بہو! جہیز میں سب سے بھاری تم ہو اور اس کے بعد تمھارا یہ پاندان۔ ایک دن کی بیاھی تھی۔ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔ وہ تو جب دوسرے روز ساس کا دو سیری کا گندا بسندا پاندان دیکھا تو ساس کی ساری قلعی اتر گئی۔ پھر خود ہی پاندان کی قلعی پر آجائیں:
پہلے کم بخت مارا گلی میں آجایا کرتا تھا قلعی والا۔ ارے کیا نام تھا اس کا بھلا سا۔۔ ہاں مشتاق قلعی گر۔ سالوں سے شکل نہیں دیکھی اس کی۔ مرکھپ گیا ہوگا۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے تھا بہت کالا (کہتے کہتے خود ہی مسکراتیں) ایک دن تو میں نے کہہ بھی دیا:
ارے اتنی چیزوں پر قلعی کرے ہے۔ خود پہ کیوں نہیں کر لیتا۔ تھا بڑا شریف آدمی۔ کہنے لگا۔ اماں ٹئم ہی نہیں ملتا۔
پان دان اپنے اندر ایک تاریخ رکھتا۔ کبھی شہر سے باہر شادی ہوتی تو ساتھ بھی چلا جاتا جس کو موقع لگتا پورا پان یا پھر تھوڑی چھالیہ لے نکلتا۔ ویسے شادیوں میں شوخ و چنچل مزاج لڑکیاں پان چھالیہ تنگ کرنے کے لئے زیادہ کھایا کرتی تھیں اور پھر خود ہی آکر شکایت لگاتیں کہ خالہ۔۔ سلمی نے ہمارے سامنے پان کا بڑا پتہ اور ڈھیر ساری چھالیہ کھائیں اور باہر جاکر فورا تھوک دیں۔ جس پر تنک کر پاندان والی کہتیں:
اچھا وہ چھبن کی بیچ والی! لگے تو بڑی باولی سی ہے۔ یہ ہے کہاں کو؟ لڑکیاں اشارے سے بتاتیں کہ وہ تو نظر نہیں آرہی پھر چھبن چچا ادھر بیٹھے ہیں۔ اب چھبن کی کلاس ہوجاتی:
اے بھیا، اگر بٹیا کو پان چھالیہ کا اتنا ہی شوق ہے تو پاندان کاھے نہیں دلا دیتے۔ شادی ہوئی اور دوسروں کا پان دان جھانکا تو سب تمھیں ہی نام رکھیں گے۔ بتائے دے رہی ہوں۔ چھبن میاں سر جھکائے ہلکی سی مسکراہٹ اور تعظیم کے ساتھ ڈانٹ سنتے رہتے انہیں پتہ تھا کہ ماجرا کیا ہے۔
گھر میں چھوٹے پوتا پوتی اگر اکیلے میں پاندان کی طرف چلے جاتے تو شور مچ جاتا۔ ارے پکڑو، سنبھالو، کہیں تمباکو نہ کھا لے۔ ساس سے تو کچھ نہ کہتیں مگر بچے منہ یا کولھے پر ایسا جاتیں کہ بچے کی سانس رکی کی رکی رہ جاتی۔ ایسے موقع پر بہووں کو ساس کا پاندان زہر لگتا۔ کہتیں ایک تو ان کے پاندان نے زندگی عذاب کر رکھی ہے۔ صرورت کیا ہے پان کھانے کی۔ پیٹ میں آنت نہیں، منہ میں دانت نہیں۔ چلی ہیں پان کھانے۔ ساس کا بیانیہ مجتلف ہوتا۔ اپنے کمرے میں جا کر اونچی آواز میں کہتیں:
پتہ نہیں کیا بچوں کی تربیت کر رہی ہیں۔ ہمارے بھی بچے تھے ایک بار منع کردیا۔ بس پھر کسی کی مجال نہیں جو پاندان کی طرف بھٹک جائے۔ خود کو بنے سنورنے سے فرصت ملے تو بچوں ہر دھیان دیں۔ میرا پہلوٹی کا اسلم ہوا اور آخر کی منی، حرام ہے جو ہم نے صابن کے علاوہ منہ کو کچھ لگایا ہو۔ یہ پتہ نہیں منہ پر صبح شام کیا کیا تھوپے جائے ہیں۔ ہفتے ہفتے منہ کی رگڑائی کے لئے بولٹی پارکر جائے ہیں پر رونق نام کو نہیں۔
اگر گھر میں پاندان والی کی کوئئی ہم عمر رشتے دار یا محلے والی آجاتی توسمجھیں کہ کوئئی نہ کوئئی اپنی یا محلے کی بہو زیر عتاب آئئی ہی آئئی۔ وہ وہ پینڈورا بکس کھلتے کہ انگلیاں رکھنے کو منہ چھوٹا ہڑ جاتا۔ منہ میں پان اور اس پر چھالیہ کی کتر کتر الگ مزہ دیتی۔ گھنٹوں گزر جاتے۔ دوپہر کے کھانے کا وقت آجاتا۔ جہاں مہمان نے جانے کا کہا۔ فورا جواب آتا: ارے ابھی تو آئئی ہو، ایسے تو نہ جانے دوں گی۔ بیٹھو، کھانا کھا کر جانا۔ ادھر بہووں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہوتے کہ اتنا بار۔ بی کیو (غیبت کا سیشن) کھانے کے بعد بھئی پیٹ بھرا نہیں۔
مگر اب یہ سب زمانے لد گئے ہیں۔ بس رہ گئئی ہیں تو باتیں اور یادیں۔ دنیا کو گلوبل ولیج بنایا جارہا ہے۔ پرائیویٹ اور پرسنل لائف، گھریلو سکون اور بچوں کی تعلیم کے لئے اب خاندان چھوٹے چھوٹے یونٹس میں بٹ رہے ہیں۔ ان یونٹس کو فیملی کہا جاتا یے۔ ان میں پاندان تو دور کی بات والدین کے رہنے کی جگہ نہیں بن رہی ہے۔ واقعی خاندان تھے تو پاندان تھے۔