Saturday, 05 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Azhar Hussain Azmi
  4. Karachi Mein Aik Tha Ghareebon Ka Clifton

Karachi Mein Aik Tha Ghareebon Ka Clifton

کراچی میں ایک تھا "غریبوں کا کلفٹن"

میں نے تو زندگی میں اس شہر کو ہی اپنا سب کچھ جانا اور مانا۔ آنکھ کھولی تو اس کی گلیوں کو دیکھا۔ ایسا لگا کہ میں پیدا ہی اس شہر کے لیے ہوا ہوں۔ کہیں اور جاوں گا تو ٹک نہ پاوں گا۔ پہلے میں یہ صرف سمجھتا تھا لیکن جب کچھ عرصے کے لیے اس سے دور ہوا تو ہقین آ گیا کہ کراچی میری رگ و پے میں سمایا ہوا ہے۔ اب مجھے لگتا ہے کہ ترقی کے نام پر میرے بچپن کا کراچی کہیں کھو گیا ہے اور اس میں سب سے اہم تلاش گمشدہ "غریبوں کا کلفٹن" ہے۔

کلفٹن کے نیم سنسان روڈ جو کبھی ہمیں اپنے لگتے تھے، پرائے لگنے لگے۔ کلفٹن کو سی ویو نے آ گھیرا۔ ساتھ ہی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوگئیں۔ ساحل پر گاوں (ولیج) بس گیا اور کچھ دور دو دریا کا سنگم ہوا۔ اپر مڈل کلاس کو ساحل سمندر پر کھانے پینے کے مقامات میسر آ گئے۔ جہانگیر کوٹھاری کی بارہ دری کے مونیومنٹ کو اپر کلاس کے شاپنگ سینٹر پارک ٹاور نے ایک کونے میں پارک کر دیا۔ نئے پر پیچ پل اور اس کی چکا چوند لائٹوں نے مجھ سے میرے بچپن اور لڑکپن کا کلفٹن چھین لیا ہے۔

ہمارے زمانے میں کلفٹن کا مطلب تھا سمندر جو سال میں دو تین مرتبہ ہمیں گیلا کرتا اور ہم خوشی سے گیلے نہ سماتے۔ وقت بدلا۔ زیادہ تر دوستوں کے ساتھ جانا رہتا۔ گھر والوں کے ساتھ سالوں میں جانے کی دال گلتی۔ بے فکری کا زمانہ، فراغت کے دن تھے۔ اس پر سب سے اچھی بات یہ تھی کہ کراچی پر سکون تھا۔ دن میں کوئی ڈر نہ تھا۔ بس رات کو کہیں سے واپس آو تو گراونڈ میں کتوں کے بھونکنے اور پیچھے لگنے سے ڈر لگتا۔

دوستوں کے ساتھ بیٹھے بیٹھے کلفٹن جانے کا پروگرام بن جاتا۔ بس جیب میں کرائے کی پیسے اور ایک امیر دوست کا ساتھ کہ جو تھوڑا موڑا پیٹ پوجا کرا سکے۔ اپنے جانگیئے لیے اور چل پڑے۔ 4H میں بیٹھ کر نکل جاتے۔ ایمپریس مارکیٹ سے پھسڈی 20 نمبر بس پکڑتے اور کونے کی سیٹ پر بیٹھک کر ادھر ادھر دیکھتے جاتے۔ صاف ستھرا کراچی اور اس کے سیدھے سادے راستے دل کو بہت لبھاتے۔ اس وقت زمینی گندگی اور فضائی آلودگی سے پاک کلفٹن کو کمرشل عمارتوں اور پلازوں کے جنگل نے گھیر لیا اور ہم دیکھتے رہ گئے۔ جس روٹ پر کبھی 20 نمبر کا راج ہوا کرتا تھا۔ اب وہاں بڑی بڑی لگژری گاڑیاں فراٹے بھرتی ہیں۔ 20 نمبر بس آج بھی چلتی ہے مگر اب اس میں سمندر آنے والے لوگ نہیں ہوتے بلکہ وہاں کے دفتروں میں کام کرنے والے کم تنخواہ دار افراد اور مزدور ہوتے ہیں۔

ہم کراچی والوں کے ساتھ بڑا ظلم ہوگیا سائیں۔۔

کلفٹن کی پہچان جہانگیر کوٹھاری کی بارہ دری کا مونیومنٹ نظر آتا تو دل سمندر کی لہروں کی طرح اچھلتا۔ مونیومنٹ سے ساحل سمندر کا فاصلہ کوئی ایک میل کا تو ہوگا۔ راستے میں سیپیوں سے بنی اشیا جن میں عورتوں کے کم قیمت زیورات تخت پر برائے فروخت ہوتے۔ سمندر کی پھڑپھڑاتی ریتیلی ہوائیں ہمارا منہ چومتیں، خوش آمدید کہتیں، اٹھکیلیاں کرتیں: کیوں میاں بڑی دیر بعد آنا ہوا؟ پہلے صورت پر ہمارا غازہ سجا لو۔ نہاؤ گے تو اور نکھر جاو گے۔ وہ رنگ چڑھے گا کہ دنیا دیکھے گی۔ اس زمانے میں اس بات کی کسی کو پروا نہ تھی کہ سمندر کے نمکین پانی سے رنگ کالا ہو جائے گا۔ سن بلاک کیا بلا ہے جانتے بھی نہ تھے۔ جلد کالی پڑتی اور کچھ دن بعد اس کی جگہ نئی جلد آ جاتی لیکن جب تک پرانی جلد رہتی ہمارے سمندر پر جانے کی گواہی زندہ رہتی۔

سمندر کو دیکھتے تو لہروں سے ملنے دوڑے چلے جاتے۔ بے خطر کودنے کو، دور تلک جانے کو دل چاھتا مگر دوستوں میں ایک ابا نما دوست ایسا کرنے سے روکنا۔ گھر والوں کے ساتھ ہوتے تو پہلا حکم نامہ مل جاتا کہ کوئی گھٹنوں گھٹنوں پانی سے آگے نہیں جائے گا۔ گو کہ سمندر کی موجیں کہتیں کہ آگے آو۔ مجھ سے کھیلو مگر حکم نامہ سے روگردانی کی ہمت نہ ہوتی اور اگر آنکھ بچا کر جانے کی کوشش کرتے تو گھر کے کسی بڑے کی جاسوس نگاہی کا شکار ہو جاتے اور وہیں سے آواز آتی: اے مسٹر زیادہ ہیرو بننے کی کوشش نہ کرو۔ موجیں کہتیں: اے بھیا تم گھٹنوں گھٹنوں پانی میں ہی رہو ورنہ اس سے بھی جاو گئے۔

پہلی ڈبکی کے بعد جب پانی منہ میں جاتا تو نمک کی شدت اور اس پر ہلکی سی ابکائی آتی لیکن سمندر کی الہڑ لہریں ایسا اپنا سحر جاگتیں کہ کچھ لمحے بعد وہ نمک نمک ہی نہ لگتا۔ اب سمندر کنارے جہاں تک اجازت ہوتی کھڑے کھڑے رہتے۔ اونچی لہر آتی تو اپنے آپ کو اس لہر کے اندر جا گھسیڑتے۔ کبھی لہر واپس جاتی تو لگتا کہ ہییں بھی اپنے ساتھ لیے جارہی ہے۔ پیروں سے مٹی سرک رہی ہے۔ پیر جما کر کھڑے ہو جاتے یا ساتھ والے کو پکڑ لیتے۔ ایک مرتبہ ایسا ہی ہوا سمندر کی لہر ہمیں لے جانے لگی۔ ہمارے قدم لڑکھڑائے۔ اتفاق سے ایک دبلا پتلا دوست جسے ہم تنکا کہا کرتے تھے۔ اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ ذرا جم کھڑا تھا۔ اس دن پتہ چلا کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا کیا ہوتا ہے۔

کوئی پانی سے نکلنے کا نام نہ لیتا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جاتا۔ متعدد بار آوازیں دینے کے بعد بھی کوئی باہر نہ نکلتا تو گھر یا خاندان کا سب سے با رسوخ شخض آتا اور پیار اور ڈانٹ پھٹکار سے کام لیتے ہوئے سب کو کھانے کی دری پر لے آتا۔ ذرا سوچیں! سمندر کے پانی سے تر چہرہ، نمکین پانی سے پھولی انگلیاں، اس پر ریت ملا کھانا اور اس میں سر کے بالوں سے گرتے پانی کے قطرے۔۔ واہ مزا آ جاتا۔ کھانا کھایا اور پھر سے سمندر کی سرحدی لہروں سے تربتری شروع ہو جاتی۔

ابھی شام دور ہے مگر پکنک میں شریک کوئی پکنک بیزار شخض گھر سے دوری اور فاصلے کا راگ الاپنا شروع کر دیتا۔ آوازیں آنے لگتیں: اب ہم جا رہے ہیں۔ تمھیں رکنا ہے تو رک جاو۔ ان باتوں کا ہم پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ بالآخر خاندان کا دوپہر والا با رسوخ شخص آتا اور ہم سب کو مرغیاں سمجھ کر ہانکتا اور گاڑی کے ڈربے میں بند کر دیتا۔ کچھ بھی تھا مجھ جیسے شوریدہ سر کو کلفٹن کی شوریدہ سر موجیں ہی سکون بخشتی تھیں۔ وقت نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ قدریں بدل گئی ہیں۔ چہرے پر بے چہرگی آ گئی ہے۔ پرانے وقتوں کے دوست جانے کہاں چلے گئے ہیں جو ہیں ان کے لیے عبد الاحد ساز کہتے ہیں:

دوست احباب سے لینے نہ سہارے جانا
دل جو گھبرائے سمندر کے کنارے جانا

مگر میرا سمندر کا کنارا "غریبوں کا کلفٹن" تو ایک شام خاموشی سے سورج کے ساتھ ڈوب گیا ہے۔ کتنا اکیلا ہوں میں۔ نہ جانے مجھ جیسے کتنے لوگوں کا یہ نوحہ ہوگا۔

نظروں سے ناپتا ہے سمندر کی وسعتیں
ساحل پہ اک شخص اکیلا کھڑا ہوا

محمد علوی

About Azhar Hussain Azmi

Azhar Azmi is associated with advertising by profession. Azhar Azmi, who has a vast experience, has produced several popular TV campaigns. In the 90s, he used to write in newspapers on politics and other topics. Dramas for TV channels have also been written by him. For the last 7 years, he is very popular among readers for his humorous articles on social media. In this regard, Azhar Azmi's first book is being published soon.

Check Also

Israel Mein Americi Safeeron Ki Taenati Ka Miyaar

By Wusat Ullah Khan