Watan Ventilator Pe Hai
وطن وینٹیلیٹر پہ ہے
دسویں دن وہ شخص دوسری بار اٹھتا ہے، دو ہزار سی سی لگژری گاڑی میں بیٹھ کر آتا ہے، اس کی گاڑی پر مقروض ملک کا سبز جھنڈا لہرا رہا ہے، ٹینکی میں پچاس لیٹر مفت کا پٹرول ہے، وہ کرسی پہ براجمان ہو کر 210 روپے فی لیٹر کی بد خبری یہ کہہ کر سناتا ہے کہ مزید اضافے کے لیے تیار رہیں کیونکہ ملک کو بچانا ہے۔ یہ کہہ کر لش پش گاڑی میں ہاتھ ہلاتا نکل جاتا ہے، کیونکہ اس اعلان سے اسے رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا۔
قوم کے درد میں مرنے والوں کے بیانات کا نچوڑ یہ ہے کہ "ملک بچانا ہے تو پھر مہنگائی برداشت کرنا ہو گی۔ "
جی بہتر! ملک ہی تو بچانا ہے، کیا آپ اس میں حصہ ڈالیں گے؟
جی، جی آپ؟ جن کو صرف 300 لیٹر فیول کی مد 65 ہزار روپے قومی خزانے سے ملتا ہے اور یہ پٹرول 19 ویں گریڈ کے ہر افسر، بڑی کار اور بڑی توند والے ہر مستحق ممبر پارلیمنٹ کو ملتا ہے۔ 45 ارب "ماہانہ" صرف مراعات پر کھا جانے والے مگرمچھ صرف ایک سال کے لیے ملک بچانے میں حصہ ڈال سکتے ہیں؟ اپنے پیسوں سے ہر چیز خرید سکتے ہیں؟
نہیں؟
مشکل ہو جائے گی نا؟ مفت بجلی، پٹرول، بغیر سبسڈی کے اور ٹیکس فری عیاشی، مفت وی آئی پی علاج، ائیر کنڈشنڈ گھر، مفت تعلیم۔ یہ سب نہ رہا تو یہ مستحق اشرافیے تو مر جائیں گے۔ لیکن ہر بار روتے ہوئے کہتے ہیں، ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، اس دیوالیہ پن میں کسی ایک لیڈر نے اپنی مراعات واپس کرنے کا اعلان کیا؟ کسی ایک نیوٹرل نے 45 ارب کی ماہانہ عیاشی بند کرنے کا نام لیا؟ کسی ایک جج نے اپنی اور ان نسلی شہزادوں کی شاہانہ مراعات کا نوٹس لیا؟
نہیں نا، تو منافقو پھر رونا کس بات کا؟
ملک کے وسیع تر مفاد میں ہم نے ہی سسکنا، رونا اور تڑپنا ہے، تو آپ کا اس وطن اور تکلیف سے کیا تعلق؟ ہم ملک بچانے کے لیے فاقہ کرنے کو تیار ہیں، لیکن اس بار اس میں تم بھی حصہ ڈالو۔ یہ ملک صرف ہمارا نہیں ہر جج، جرنیل، سیاست دان، بیورو کریٹ کا ہے۔ اگر کولمبو جیسے حالات پیدا ہو گئے، اور ایک ایک عیاش کو گریبان سے پکڑ کر قوم چوک میں لے آئی تو قوم کو الزام مت دینا۔ بھوک، مفلسی، خالی جیب اور خالی پیٹ اتنی بری چیز ہے کہ ایوان ہلا دیتی ہے۔
آئیے بلا تفریق، سیاسی وابستگی سے ہٹ کر ملک کو بچائیں، مراعات میں اصلاحات سے پہلے ووٹ مت دیں۔ سوشل میڈیا ہو یا ملک کی گلیاں، یک زبان ہو جائیں، ایک آواز بن جائیں، ورنہ یہ مگرمچھ تمہاری خوشیاں اور ملک کھا جائیں گے۔