Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Potli Halki Kar Lain

Potli Halki Kar Lain

پوٹلی ہلکی کر لیں

آپ چائے کی پیالی کتنی دیر تک پکڑ کر رکھ سکتے ہیں؟ آپ سوچ رہے ہوں گے یہ تو بہت معمولی کام ہے، پیالی تو ایک دو گھنٹے آسانی سے ہاتھ میں پکڑ کر رکھ سکتے ہیں۔ بالکل، ایسا ہی ہے، کوئی بھی وزن تھوڑی دیر کے لیے اٹھانا ہو تو زیادہ دقت محسوس نہیں ہوتی، لیکن مسئلہ تب بنتا ہے۔ جب یہی معمولی وزن زیادہ دیر اٹھانا پڑ جائے۔ اگر یہی پیالی آپ کو کئی گھنٹے پکڑ کے رکھنی پڑے تو وبال جان بن جائے۔

ہاتھ تھکنے لگے، پیالی چھلکنے لگے، ہمت جواب دے گئی تو پیالی ہاتھ سے ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ ہمارے ذہن میں رکھی معمولی باتیں اور تلخ واقعات کی مثال بھی اس پیالی جیسی ہے۔ جسے ہم عرصہ دراز سے پکڑے ہوئے ہیں، ایک وقت آتا ہے کہ ہمارے اعصاب چٹخنے لگتے ہیں۔ آپ کو نہیں لگتا ہم ساری عمر کچھ وزن بلاوجہ ڈھوتے رہتے ہیں؟ چھٹانک بھر وزن کو من بھر بنا لیتے ہیں۔ اور ظلم یہ ہے کہ کسی سے اپنا بوجھ بانٹتے بھی نہیں ہیں، کہتے نہیں ہیں، کسی کو لکھ نہیں بھیجتے۔

پرانے دور میں ڈائریاں ہوتی تھیں اور لوگ باقاعدگی سے ڈائری لکھا کرتے تھے، یہ ڈائری بڑا قیمتی ڈاکیومنٹ بھی ہوتی تھی، انسان دل کے کئی راز اس میں رقم کرتا تھا، تاریخ، دن اور سال کے حساب سے واقعات لکھے جاتےتھے کبھی اشعار ذریعہ بن جاتے تھے۔ یہ ہمارا کتھارسس تھا، ہمارے اندر کا ابال، تھکن اور گھٹن کافی حد تک منتقل ہوجاتی تھی۔

پھر وقت بدل گیا۔ ہم ماڈرن ہو گئے۔ ہمارے مسائل بڑھے، ہماری پرائیویسی بھی بڑھنے لگی۔ ان ڈائریوں کو تو ہم کہیں دور پھینک آئے جن کا نہ کوئی پاسورڈ تھا اور نہ ہی لاک لگتا تھا۔ ہم ڈیجیٹل دنیا میں آ گئے ہیں، اب ہمیں اپنا درد چھپانا اور فلٹر لگانا آ گیا، حلقہ بڑھ گیا لیکن اور تنہا ہو گئے۔ پھر انکشاف ہوا کہ بظاہر مسکرانا سیکھ لیا ہے۔ لیکن ہمارے اندر کی تنہائی، بے بسی، خوف، ڈیپریشن کی پوٹلیاں تو پہلے سے بھاری ہو گئیں۔

ہم سوشل میڈیا پر سب کچھ شئیر کر سکتے ہیں، کیا کھایا، کیا پیا، کہاں گئے۔ لیکن ہم اپنا خوف، اینزائٹی، گھٹن اور محرومیاں اس پر شئیر نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم خود ہی نامعلوم بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں اور اپنے آپ کو بہادر تصور کرتے ہیں۔ بظاہر ہم دنیا کے سامنے Grow کرتے ہیں، حقیقتاً لمحہ لمحہ گھلتے رہتے ہیں۔ ہم تلخیوں بھری پیالی کو عمر بھر اٹھانے کا تہیہ کر لیتے ہیں اور پھر کڑھتے ہیں کہ آخر ہم اس بوجھ کو کب تک اٹھائیں گے؟

سوال یہ ہے کہ کس نے کہا ہے یہ بوجھ اٹھائیں؟ اس بوجھ کو بانٹ کیوں نہیں لیتے؟ خود ساختہ بہادر بننے کی بجائے، حقیقی بہادر بن جائیے۔ ، کتھارسس، اتنا ہی ضروری ہے جتنا سانس لینا۔ لیکن نہیں، کتھارسس بھی نہیں کرنا چاہتے کہ ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ یہاں کوئی مخلص ہے ہی نہیں تو کس سے کہیں؟ تو پھر اس کا ایک ہی حل ہے، جو نامعلوم بوجھ آپ نے اپنے اعصاب پر طاری کر رکھا ہے۔

اسے اپنی مدد آپ کے تحت خود ہی ہلکا کرنا شروع کر دیجیے۔ ماضی میں جو ہوا، گزر گیا، سوچنے یا کڑھنے سے ماشہ بھر فرق نہیں پڑے گا، سو ایسی تمام تلخیاں جو ماضی سے کنکشن رکھتی ہیں۔ ان کو کسی ربڑ سے مٹا دیں، مستبقل کے خدشے بھی نکال دیں، جو وقت ابھی آیا ہی نہیں اس کا روگ کیوں پالیں۔ اللہ پر توکل رکھیں۔ ذہنی تناو کم ہوگا، تو حال خود بخود بہتر ہونے لگے گا۔ ذہن پر طاری بوجھ سرکنے لگے گا۔

زندگی گزارنے کی نہیں جینے کی چیز ہے۔ دو ہی اصول ہیں، کہنا سیکھ لیجیے یا پھر سہنا سیکھ لیجیے۔ لیکن ذہنی گھٹن میں مت جئیں۔ اپنے دائرے سے باہر نکل کر دیکھیں، زندگی کے ایسے ایسے مسائل ہیں۔ جن کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کسی روز اپنی پوٹلی کا وزن کیجیے، شرطیہ دوسروں کی گٹھڑی سے ہلکی ہی نکلے گی۔

Check Also

Tufaili Paude, Yateem Keeray

By Javed Chaudhry