Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asifa Ambreen Qazi
  4. Karguzari

Karguzari

کار گُزاری

میری جلد سیکھنے کی صلاحیت ڈرائیونگ کے معاملے میں بالکل صفر نکلی۔ ذاتی گاڑی لی تو صاحب نے تین دن ڈرائیونگ سکھائی۔ اسی دوران ان کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا۔ نصیحت کی گئی کہ ابھی اسٹنٹ دکھانے کی ضرورت نہیں، بس یو ٹیوب پر ڈرائیونگ لیکچر دیکھیں پھر بھی طبیعت زیادہ مچلے تو سڑک پر نکلنے سے قبل آخری وصیت لکھ کے تپائی پر رکھتی جائیں تاکہ سند رہے۔

ایک گرم دوپہر کو چابی پر نگاہ پڑتے ہی طبیعت مچل ہی گئی۔ نقشہ ترتیب دیا کہ فلاں فلاں سڑک کو ٹائروں سے روندتے ہوئے، کمال مہارت کے جوہر دکھلا کر آدھ گھنٹے میں واپس آ جاوں گی۔ نگہ بلند، سخن دلنواز کا شعر دہراتے ہوئے عازمِ suffer ہوئے۔ گاڑی چند فرلانگ ہی رینگی تھی کہ سامنے گائے کھڑی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کسی نے میرے لیے چھوڑی تھی۔

گاڑی کچے پہ اتار کے بند کر لی کہ پہلے وہ گزرجائے۔ گائے کا رخ اب میری طرف تھا۔ اسمعیل میرٹھی کی نظم " رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ہماری گائے بنائی"۔ زہر لگی۔ میں نے دروازے کے لاک دوبارہ ٹٹولے۔ کہیں سنا تو نہیں تھا کہ گائے نے سینگوں پر گاڑی اٹھا کے پٹخی ہو، پھر بھی بند گاڑی کا اسٹیرنگ پتا نہیں کیوں کانپ رہا تھا۔

شریف گائے خراماں خراماں پاس سے گزر گئی تو گاڑی میں جان آئی۔ پھر سے اعتماد بحال ہوا، اور دس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی سڑک پر دوڑا دی۔ دو رویہ سڑک آ چکی تھی اور آگے سپیڈ بریکر بھی تھا، جلدی سے بریک لگانے کا سبق دہرایا۔ اور بریک پر پاوں رکھ دیا، پتا چلا، وہ بریک نہیں ایکسیلیٹر تھا۔

نازک اندام گاڑی زور سے اچھلی، تڑپی اور جھٹکے سے سپیڈ بریکر کے پار پہنچ گئی۔ وہاں آلتی پالتی مار کے بیٹھی فقیرنیاں بھاگ کھڑی ہوئیں، کشکول کے سکے جابجا بکھرے پڑے تھے۔ گاڑی شدید اعصابی تناو کا شکار ہو کر کومے میں چلی گئی۔ میں نے باہر نکل کر معائنہ کیا جیسے نقص پتہ چل گیا تو ٹھیک بھی کر لوں گی۔

معائنہ کرکے دوبارہ چابی گھمائی۔ سٹارٹ تو ہو گئی لیکن جم کے کھڑی رہی۔ اندر جتنے بھی بٹن نظر آئے سب پر زور آزمائی کی۔ "آپ کی ہیڈ لائیٹیں آن ہیں " کسی نے شیشے کے پاس آکر کہا "تو؟ آپ کو کیا ہے؟" میں نے تیوری چڑھائی۔ سوچا تیز دھوپ میں ان کو ہیڈ لائٹ کیسے نظر آ گئی۔ لائٹیں بند کیں تو وائپر چلنا شروع ہو گئے۔

گاڑی تیز دھوپ میں بارش کا سین فلما رہی تھی۔ میں نے بند کرنے کے لیے ہر طرف ہاتھ چلائے۔ راہ گیر یوں کھڑے ہو گئے جیسے گاڑی آئٹم نمبر پیش کر رہی ہو۔ ایک صاحب جو کب سے ہارن دے رہے تھے اتر کر سامنے آئے، اور شیشہ بجایا، میں نے شان بےنیازی سے نیچے کیا۔

"آپ کو ہارن کی آواز نہیں آرہی؟ کب سے ٹریفک رکی ہوئی ہے!" وہ اونچی آواز میں گویا ہوئے، میں نے ایسا تاثر دیا جیسے قوت سماعت سے محروم ہوں۔ "کوئی مسئلہ ہے؟" وہ منہ آگے کر کے بولے "آپ کو ہوگا مجھے تو نہیں " میں نے شیشہ اور نیچے کیا۔ "پھر گاڑی چلا کیوں نہیں رہیں، چوک میں روک رکھی ہے"۔

"چلا تو رہی ہوں یہ چل نہیں رہی" میں نے ریس دباتے ہوئے لاچاری سے کہا۔ "آپ نے گئیر ہی نہیں ڈالا، چلے کیسے؟ انہوں نے سر پیٹ لیا۔ چوک میں ہر طرف پاں پاں پاں، ہو رہی تھی۔ میں نے شرمندہ ہو کر گاڑی پہلے گئیر میں کی اور چل پڑی۔ بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ میں کُوچہ یقیناً چوک کو کہا گیا تھا۔

الہی جلدی سے یوٹرن آجائے اور گھر کی راہ لوں۔ مجھے سڑک اب پل صراط لگ رہی تھی۔ اعصاب جواب دے چکے تھے اور لوگ سوال کر رہے تھے۔ اگرچہ سائیکل سوار اور ریڑھی بان مجھےاورر ٹیک کر نے لگے تھے۔ لیکن پیدل چلنے والوں کو میں نے اب بھی پیچھے چھوڑ رکھا تھا۔

گاڑی کبھی جھٹکا کھاتی کبھی غش، سڑک پر اب ہٹو بچو کی کیفیت تھی۔ کچھ دور اندیش فٹ پاتھ پر چڑھ گی تھے۔ ماوؤں نے بچوں کو سڑک سے جھپٹ لیا تھا۔ "کچھ لوگ جو گھر سے لڑ کر آئے تھے جان بوجھ کر میرے سامنے آئے لیکن میں نے کمال مہارت سے ان کو بچا لیا۔ "آپ کو نظر نہیں آ رہا، بیچ سڑک کے کھڑے ہیں؟ میں نے شیشہ نیچے کرکے، کھڑکی سے سر نکال کر سامنے کھڑے ڈھیٹ شخص کو ڈپٹ کر کہا۔

"میڈم میں ٹریفک وارڈن ہوں " اس نے پلٹ کر کہا۔ "تو سائیڈ پہ کھڑے ہوں ناں " میں نے لہجہ بدلا اور زن سے گاڑی لڑھکا دی۔ تین کلومیٹر کے بعد سارا جوش اور جذبہ سرد پڑ گیا تھا۔ جس گاڑی نے فراٹے بھرنے تھے خراٹے لے کر واپس آ گئی۔

اب نہ نگہ بلند تھی اور نہ سخن دلنواز، اگر باقی تھی تو بس جاں پر سوز۔

Check Also

Janoobi Korea , Muashi Taraqqi Aur Corruption Ka Taal Mil

By Khalid Mehmood Rasool