Pension, Awam Ka Paisa, Hukumat Ka Munafa
پینشن، عوام کا پیسہ، حکومت کا منافع
یہ بجٹ کا مہینہ ہے اور آج کل تنخواہ اور پینشن پر بہت بات ہو رہی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے اضافہ فرمائیں گے اور کبھی نہیں۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ مہنگائی کی شرح پچاس فیصد کے قریب ہے لیکن تنخواہ پینشن اضافہ ابھی ڈبل فگر میں داخل نہیں ہوا اس سے نیچے نیچے ہی پھر رہا ہے۔
یہ ایک نہایت اہم اور حساس موضوع ہے جس پر پاکستان جیسے ممالک میں شعور کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا تعلق نہ صرف معیشت، بلکہ معاشرتی انصاف، حکومتی شفافیت اور عوام کے حقوق سے جڑا ہوا ہے۔
پینشن ایک ایسا لفظ ہے جو بظاہر ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سہارا معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک ایسا نظام ہے جس کے اندر کئی تہوں میں عوام کے پیسے سے کمائی کی ایک گہری داستان چھپی ہے۔ پینشن صرف ایک ماہانہ امداد نہیں، بلکہ عوامی اعتماد، قومی سرمایہ اور حکومتی حکمتِ عملی کا ایک مکمل فریم ورک ہے۔ جب ہم پینشن کو صرف "سرکاری امداد" یا "ریٹائرڈ لوگوں پر احسان" سمجھتے ہیں، تو ہم اس پورے سسٹم کی بنیاد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
پینشن کا بنیادی ماخذ: یہ پیسہ آتا کہاں سے ہے؟ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پینشن کا پیسہ حکومت کے کسی نجی خزانے سے نہیں آتا۔ یہ وہ رقم ہوتی ہے جو شہری اپنی پوری سروس کے دوران مختلف ٹیکسز، کٹوتیوں اور قانونی فنڈز میں جمع کرواتے ہیں۔
پاکستان میں بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے GPF (General Provident Fund) اور دیگر شراکت دار نظاموں کے ذریعے کٹوتی کی جاتی ہے۔ یہی رقم مختلف فنڈز میں جمع ہوتی ہے اور پھر حکومت یا متعلقہ ادارے اس کو مختلف معاشی سرگرمیوں میں لگا کر منافع کماتے ہیں۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے: جب یہ پیسہ عوام کا ہوتا ہے، تو حکومت اس کو "ریٹائرمنٹ کے بعد ہم آپ پر احسان کرتے ہیں" کے بیانیے میں کیوں پیش کرتی ہے؟
میں یہاں ایک بین الاقوامی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں جو کہ کینیڈا کا پینشن ماڈل ہے۔ کینیڈا میں Canada Pension Plan Investment Board (CPPIB) ایک خود مختار ادارہ ہے جو شہریوں کے پینشن فنڈز کو منظم کرتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ CPPIB نے اب تک صرف ایک ملک بھارت میں تقریباً 75 ارب کینیڈین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، جس میں انفراسٹرکچر، توانائی اور رئیل اسٹیٹ سمیت کئی شعبے شامل ہیں۔ باقی دنیا میں اس ادارے نے کتنی سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور اس سے کتنا کما رہا ہے، وہ الگ ہے۔
یہ رقم حکومت کی طرف سے نہیں، بلکہ عام کینیڈین شہریوں کی طرف سے جمع شدہ پینشن فنڈز کی سرمایہ کاری ہے۔ حکومت اس رقم کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرتی ہے اور حاصل ہونے والے منافع کا کچھ حصہ ریٹائرمنٹ کے بعد شہریوں کو پینشن کی صورت میں واپس کرتی ہے۔ باقی منافع ریاستی ترقیاتی منصوبوں، بجٹ خسارے کی تلافی، یا دیگر سرکاری مصروفیات پر خرچ کیا جاتا ہے۔
اب اگر ہم سوال کریں کہ اس ماڈل میں سب سے زیادہ فائدے میں کون ہے؟ تو جواب سیدھا ہے: ریاست۔
پاکستان میں پنشن کا تصور کیا ہے؟ پاکستان میں پینشن ایک پیچیدہ نظام کا حصہ ہے۔ سرکاری ملازمین کو پینشن دی جاتی ہے، لیکن نجی شعبے میں کام کرنے والوں کے لیے کوئی مؤثر پینشن سسٹم موجود نہیں ہے، سوائے چند انشورنس کمپنیوں یا EOBI (Employees Old-Age Benefits Institution) کے، جو شدید بدانتظامی، محدود فنڈز اور عدم شفافیت کا شکار ہے۔
سرکاری ملازمین کی پینشن بھی وقت کے ساتھ ایک بوجھ بن کر پیش کی جاتی ہے، حالانکہ وہ ملازمین اپنی پوری سروس کے دوران تنخواہوں میں اضافے کی محرومی، ترقی کے رکاؤ اور دیگر مالی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ان کی کٹوتیوں کا پیسہ آخرکار کسی نہ کسی پراجیکٹ یا حکومتی سرمایہ کاری میں لگایا جاتا ہے اور منافع کا بہت معمولی حصہ انہیں واپس ملتا ہے۔
حقیقت یہ ہے:
1۔ پینشن عوام کا حق ہے، احسان نہیں۔
2۔ یہ حکومت عوام کے پیسے سے کماتی ہے اور عوامی اعتماد کی امانت استعمال کرتی ہے۔
3۔ پینشن کی رقم کا اصل منبع عوام کی دہائیوں پر محیط محنت اور تنخواہوں سے کی گئی کٹوتیاں ہیں۔
4۔ حکومت اگر اس رقم کو سرمایہ کاری میں لگاتی ہے تو اس پر مکمل شفافیت، آڈٹ اور جوابدہی ہونی چاہیے۔
حکومت کا بیانیہ: "ہم پینشن دیتے ہیں"۔۔
جب حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ "ہم عوام کو ہر ماہ پینشن دیتے ہیں "، تو وہ گویا یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ یہ ان کا ذاتی یا سرکاری احسان ہے۔ یہ بات غلط اور گمراہ کن ہے۔ دراصل حکومت اس رقم کو عوام کے پیسے سے کماتی ہے اور اگر وہ یہ نہ کرے تو یہ رقم محض بنکوں میں سڑتی رہے گی۔ سرمایہ کاری سے منافع تو خود حکومت کا فائدہ ہوتا ہے، لیکن اس کا بہت معمولی حصہ پنشنرز تک پہنچتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک میں پنشن کے نظام کو خود مختار اداروں کے ذریعے چلایا جاتا ہے جو حکومت سے الگ کام کرتے ہیں، جیسے کہ کینیڈا، آسٹریلیا، ناروے اور سویڈن میں ہوتا ہے۔
کیا حل ہے؟
1۔ پنشن فنڈز کا علیحدہ اور خود مختار ادارہ قائم کیا جائے، جس میں عوامی نمائندگان، ریٹائرڈ ملازمین، ماہرینِ مالیات اور عدالت کے نامزد افراد شامل ہوں۔
2۔ سرمایہ کاری کے تمام فیصلے عوامی سطح پر شفاف انداز میں شیئر کیے جائیں، تاکہ کوئی غلط بیانی یا بدعنوانی نہ ہو۔
3۔ پنشنرز کے لیے زندگی گزارنے کے قابل پینشن مقرر کی جائے، جو مہنگائی کے حساب سے سالانہ نظرِثانی کے تابع ہو۔
4۔ EOBI اور دیگر نجی شعبے کے پنشن سسٹمز کو ڈیجیٹل، خودکار اور شفاف بنایا جائے، تاکہ ہر ملازم کو یہ سہولت حاصل ہو، نہ کہ صرف سرکاری ملازمین کو۔
5۔ پارلیمان میں پینشن فنڈز کے سالانہ آڈٹ پر بحث کی جائے، تاکہ عوام کو معلوم ہو ان کے پیسے سے کیا کمائی ہوئی اور وہ کہاں خرچ ہوئی۔
عوام کو کیا کرنا چاہیے؟
یہ وقت ہے کہ ہم پینشن کو محض ریٹائرمنٹ کا مالی سہارا نہ سمجھیں، بلکہ اسے ایک قومی اثاثہ اور عوامی امانت کے طور پر دیکھیں۔ ہمیں اپنی حکومت سے سوال کرنا چاہیے:
یہ پیسہ کہاں انویسٹ کیا گیا؟
کتنا منافع کمایا گیا؟
اس میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟
کتنے پنشنرز غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں؟
نتیجہ: پینشن کوئی خیرات یا احسان نہیں، یہ عوام کا حق ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی رِیاستی حیثیت میں عوام کی اس امانت کی حفاظت کرے، اس سے کمائے، لیکن شفافیت، ایمانداری اور عدل کے ساتھ۔ ورنہ یہ نظام بھی ایک دن عوامی اعتماد کے بحران میں ڈوب جائے گا۔
نوٹ: اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں پینشنرز باعزت زندگی گزار سکیں، تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ پیسہ حکومت کا نہیں، عوام کا ہے۔ جب تک عوام کو یہ شعور حاصل نہیں ہوتا، حکومتی بیانیہ انہیں ہمیشہ ایک "احسان مند" کی حیثیت سے زندہ رکھے گا۔