Pakistan Mein Taleem Ki Tabahi Ka Mansooba
پاکستان میں تعلیم کی تباہی کا منصوبہ
تعلیم کا مقصد ڈگری لینا یا پاس ہونا نہیں بلکہ باشعور اور سمجھدار قوم بنانا ہے جب تک قوم باشعور اور سمجھدار رہے گی تو بے وقوف حکمرانوں کی چنگل سے آزاد رہے گی۔ پس اگر کسی قوم کو بغیر کسی گولی بارود کے شکست دینا ہو تو ان کو تعلیم سے دور رکھا جائے۔ دوسرے جنگ عظیم میں جب جاپان پر پابندی کا اعلامیہ جاری ہونے لگا تو جاپان کے سربراہ نے اس پر اطمینان کا اظہار کیا کہ تعلیم پر پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔ پس جاپان نے ہر قسم پابندی کے باجود ثابت کردیا کہ تعلیم ہی کی وجہ سے قومیں بام عروج پر پہنچتی ہے۔
جیسے میں نے پچھلے کالم "دفاع پاکستان سے دفاع ختم نبوت" میں کہا تھا کہ دشمن عناصر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی راستہ اور کوئی طریقہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا پس موجودہ نااہل حکمرانوں کی وجہ سے تقریبا" ان کا ہر حربہ کامیاب رہا۔ دشمن کی چال میں بڑے تو بڑے ہیں لیکن بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔ اگر میں موجودہ حکمرانوں کی نااہلی پر بات کروں تو کالم کا مرکزی نکتہ ادھورا رہ جائے گا اس لئے یہاں پر صرف نااہل حکومت کی تعلیم دشمن پالیسی کی وجہ سے دشمنان پاکستان کے تعلیم دشمن یلغار سے پردہ چاک کروں گا۔ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے گذشتہ دو سالوں میں تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد میں 50 فیصد تک اضافہ ہوا۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے کے مطابق 2018 تک پاکستان میں سکول چھوڑنے والے بچوں کی تعداد تقریبا" 23 لاکھ تھی جبکہ حال ہی میں ہونے والے ایک تحقیق کے مطابق صرف 2 سال میں 9 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ بچے کورونا کے نام پر چھٹیوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑ گئے۔ ان بے رحم چھٹیوں کی وجہ سے پاکستان میں 10 ہزار نجی سکولز کو ہمیشہ کے لیے تالا لگ گیا جس میں 20 لاکھ سے زیادہ بچوں کی تعلیمی صلاحیت متاثر ہوئی۔ لاکھوں اساتذہ بے روزگار ہوگئے۔ یہ تعداد کورونا وائرس کی وجہ سے نہیں بلکہ اقتدار پر قابض ان نااہلوں کی وجہ سے بڑھ گئی جنہوں نے ان حالات میں موثر اقدامات کرنے کی بجائے دشمن عناصر کی اس تعلیم دشمن سازش کا ساتھ دیا جس کے تحت 2023 تک پاکستان میں تعلیم کو تاریخی نقصان پہنچانا ہے۔ یعنی جو نقصان 70 سال میں وہ نہ پہنچا سکیں وہ نااہل حکمرانوں کی وجہ سے 3 سال میں پہنچنے کے قریب ہے۔
میں مانتا ہوں کہ مارچ 2021 سے اکتوبر 2021 تک عالمی وبا کی وجہ سے تمام کاروبار زندگی بند تھی پس تمام تعلیم دوست حلقوں نے حکومت کے ایسے اقدامات کا ساتھ دیا۔ پھر جب دیگر شعبہ ہائے زندگی کو ایس او پیز فالو کئے بغیر کھلنے کی اجازت دی گئی تو تعلیم کو مثالی ایس او پیز کے تحت بھی نہیں چھوڑا گیا۔ دسمبر میں حالات معمول کے مطابق تھے تو اس وقت کے ایک حکومتی عہدیدار نے بتایا کہ یہ سیشن اگست 2021 میں شروع ہوگا جس پر میں نے ٹوئٹر پر رائے دیتے ہوئے بتایا کہ اگست سے سیشن کھولنے کا مطلب ہے کہ دوسرے سال کے سیشن کو ضائع کرنا اور اب اگست کے فوراً بعد ہی بغیر پڑھائی شروع کئے صرف تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کیا جاتا یے جبکہ اعلان کرنے والا وزیر تعلیم خود سیاسی جلسہ کرکے سکول کے بچوں کو سیاسی ٹوپیاں پہناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
گذشتہ دنوں این سی او سی کے چیئرمین اسد عمر نے ایک نصاب پالیسی کے تحت کتابوں کی عدم دستیابی اور ناکامی کو چھپانے کی کوشش کی بلکہ دشمن عناصر کی تعلیم دشمن پالیسی کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ اگلا سیشن اگست 2022 میں شروع ہوگا یعنی اب 2023 تک تعلیمی حالات مزید ابتر ہوکر رہیں گے اور دشمن کے چال کے مطابق پاکستان میں جہالت کا نیا سفر شروع ہوگا۔ بچوں کا سکول چھوڑنے کے ساتھ ساتھ ان کو کتاب سے محروم رکھ کر پاس کردینا بھی جہالت کے اس مشن میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔ جس سے ہمارے آنے والے نسل میں مطالعہ کی عادت معدوم ہوجائے گی۔
اپنے اس کالم کی وساطت سے میں ہر مکتبہ فکر، ہر سیاسی جماعت اور تمام تعلیم دوست احباب سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے بچوں کی مستقبل کے لئے آواز اٹھائیں، سڑکوں پہ نکل آئے اور ان کی مستقبل کو آنے والے یلغار سے بچائے۔ اگر بازار، ہوٹلز، سیاسی جلسے، انتخابات ہوسکتے ہیں تو کم ترین کیسز اور سخت ترین ایس او پیز کو فالو ہونے کے باوجود تعلیم کیوں نہیں؟