Siyasat Mein Mudakhlat
سیاست میں مداخلت

گزشتہ چند برس سے جب بھی سیاست میں فوجی قیادت کی مداخلت کی بحث سر اٹھاتی ہے تو ایک جملہ ضرور سنائی دیتا ہے۔ "خدانخواستہ فوج کمزور ہوئی تو پاکستان بھی شام، لیبیا، عراق، صومالیہ بن سکتا ہے۔ یہ فوج ہی ہے جس نے اس ملک کو متحد رکھا ہوا ہے"۔
گرامر کے اعتبار سے یہ جملہ بالکل درست ہے مگر کیا حقائق کے اعتبار سے بھی درست ہے؟
جب بھی سیاست اور دیگر ریاستی اداروں کے معاملات میں فوج کی دخل اندازی کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد کسی صوبیدار، کیپٹن یا میجر کے ریکارڈز کا تذکرہ نہیں ہوتا بلکہ جرنیلوں کے ایڈونچرازم کی جانب اشارہ ہوتا ہے۔ آپ ایوب خان سے پرویز مشرف تک کے ساتھ کام کرنے والے کسی بھی ریٹائرڈ فوجی جرنیل سے کبھی گفتگو کریں، ان کے مضامین پڑھیں یا ان کی لکھی کتابوں میں جھانکیں، سب ایک ہی بات کرتے آ رہے ہیں۔ جو کچھ بھی ہوا، اوپر کے چند لوگوں نے اپنے طور پر کیا۔ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ہمیں تو اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا۔ مگر ہم نے جو کیا وہ حکم کی تعمیل تھی۔ ذاتی طور پر ہم کبھی بھی سول معاملات میں فوج کی دخل اندازی کے حق میں نہ تھے نہ ہیں۔ مگر یہ باتیں تب کہی جاتی ہیں جب حال ماضی بن چکا ہو۔ اگر حال کی تنقید حال میں کی جائے تو اسے غداری سمجھا جاتا ہے۔
رہی بات شام، عراق، لیبیا، صومالیہ کی مثالوں کی، تو ان میں سے کوئی بھی ملک اس لیے نشانِ عبرت نہیں بنا کہ وہاں کی فوج کمزور تھی یا اسے جان بوجھ کر کمزور کر دیا گیا تھا۔ تاریخی طور پر چاروں ممالک شخصی آمریت کے مسلسل شکنجے میں رہے۔ حتی کہ کوئی روشندان تک نہیں تھا کہ جس سے روشنی کی کچھ بھولی بھٹکی کرنیں ہی اندر آ سکیں۔ ان تمام ممالک میں فوج، حکومت و ریاست محض ایک آمر در آمر کا نام تھا۔ جیسے ہی عوامی جذبات کے پریشر ککر کا ڈھکن اڑا تو حکومت سمیت ریاست ہی تحلیل ہوگئی۔ اس خلا کو جنگجو سرداروں اور بیرونی طاقتوں نے پر کیا۔
پاکستان کی تاریخ، اس کا کالونیل پس منظر، یہاں کے باشندوں کا مزاج اور سیاسی قیادت کا خمیر مذکورہ چاروں ریاستوں سے بالکل مختلف ہے۔ ہمارے منہ کو پچھلے سو برس کے دوران محدود آزادیوں کا ذائقہ بہرحال لگ چکا ہے، ہم جانتے ہیں کہ جمہوری دوا اور آمرانہ جُلاب میں کیا فرق ہے۔ ادارے کیسے بنتے اور بگڑتے ہیں۔ آئین کیسے لکھا اور مٹایا ہے۔ بکاؤ اور غیر بکاؤ اشرافیہ کس چڑیا کا نام ہے، آزاد اور غلام صحافت میں کیسے تمیز ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
جب کوئی کہتا ہے کہ فوج کی سیاست میں مداخلت کی بحث دراصل فوج کو کمزور کرنے اور پھر پاکستان کو شام، عراق، لیبیا یا صومالیہ میں بدلنے کی سازش ہے، تو اس قوم اور فوج کے لیے اس سے زیادہ توہین آمیز جملہ شاید ہی ممکن ہو۔ آپ آخر کہنا کیا چاہتے ہیں؟
کیا پاکستان کوئی زنجیر میں بندھا وفاق ہے جس میں کوئی قوم یا صوبہ اپنی مرضی سے نہیں رہنا چاہتا اور اس زنجیر کا سرا فوج کے ہاتھ میں ہے؟ اگر یہ زنجیر کھل گئی تو ملک ٹوٹ جائے گا؟ کیا پہلے ایک بار جو ملک ٹوٹا اس کا سبب یہی تھا؟
ملک اس لیے کمزور نہیں ہوتے کہ تمام ادارے اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہیں، بلکہ اپنے دائرے سے تجاوز کرنا ہی ملک کو رفتہ رفتہ کمزور کرتا ہے۔ اس اصول کا کسی ایک ادارے کے کمزور یا طاقتور ہونے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ نجات دہندگان کے منتظر یہ تصور تو کر سکتے ہیں کہ پاکستان کل کلاں کو شام، عراق اور لیبیا نہ بن جائے مگر یہ سوچنے سے عاری ہیں کہ ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرے میں رہنے کی عادت پڑنے کے نتیجے میں پاکستان ایک دن حقیقی آئینی و جمہوری ملک بھی تو بن سکتا ہے۔ اگر یوں ہونے لگے تو ڈر اور خوف کے ان تاجروں کا کیا ہوگا۔

