Ilm Yafta Log
علم یافتہ لوگ

لاکھوں کروڑوں درود و سلام آپ سرکار ﷺ کی ذاتِ اقدس پر۔
ہم اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ ہونے کی ہدایت کر رہے ہیں، جبکہ تعلیم یافتہ اور ہوتا ہے اور علم یافتہ اور، تعلیم آپ کو دنیاوی علوم پر دسترس کی طرف مائل کرتی ہے جس سے طالب علم اِس قابل ہو جاتا ہے کہ ڈگری حاصل کرے اور دنیا میں ایک اچھے روزگار کا حصول ممکن ہو، علم اور شے ہے یہ تعلیم نہیں ہے۔
علم نگاہ سے ملتا ہے، اللہ کے نور سے ملتا ہے، مومن کے سینے میں جاری رہتا ہے، جبکہ کتابی علم کتابوں میں دفن ہو کر رہ جاتا ہے، کتابی علم ماضی کا علم ہے، جاری علم زندگی کا علم ہے، باطن کا علم ہے، دونوں جہانوں کا علم ہے، علم عطا ہے رب ذوالجلال کی، یہ کتابوں سے نہیں مل سکتا، علم نسبت سے ملتا ہے، محبت سے ملتا ہے، نگاہِ مردِ مومن سے مل سکتا ہے۔
آج کا انسان گوگل پر علم کے لیے انحصار کر رہا ہے، وہ اپنے ارد گرد کے انسانوں کے علم سے نا آشنا ہے، چہروں کو نہیں پڑھ سکتا، کیونکہ آج کا انسان خود مشین بن کے رہ گیا ہے، اِس کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہے کہ کائنات کا مشاہدہ کر سکے، ڈوبتے ہوئے سورج کا مشاہدہ کر سکے، چاند کی چاندنی کے اثرات اپنے وجود پر محسوس کر سکے۔
حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ اگر تم محبوب کو پسند آگئے تو علم کی بارش ہو جائے گی ورنہ کہاں تک پڑھو گے، تو اپنے آپ کو تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ محبوب کو پسند آ جائیں، پھر علم کے در کھول دیے جائیں گے، ایک دن بیٹھے بیٹھے آپ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اب تک 6500 سوالوں کے جواب دے چکا ہوں، کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی انسان صرف مطالعہ کے سہارے جاری سوالوں کے اتنے جواب دے سکے، یہ اللہ تعالی کا کرم ہی ہو سکتا ہے، نگاہ مرد مومن سے ہی ممکن ہے۔
آپ اکثر ارشاد فرماتے تھے مجھے سوال کرو تو گویا آپ کا وجود تیار تھا اِس طرح کے سوالوں کے جواب دینے کے لیے، آپ فرماتے تھے پوچھ لو جو پوچھنا ہے، اِس طرح کے سوالوں کے جواب کے لیے ماضی میں لوگ ہزاروں میلوں کا سفر طے کرتے تھے، حضرت علی کرم اللہ وجہ کو باب علم فرمایا گیا ہے، آپ بھی فرماتے تھے کہ پوچھ لو جو پوچھنا ہے۔ یہ ہیں انعام یافتہ لوگ، علم نگاہ سے ہے۔
ایک ٹوٹا ہوا پتہ بھی علم عطا کرسکتا ہے، ایک کھلتا ہوا پھول بھی علم کے در کھول سکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ کسی صاحبِ نظر کی نگاہ کا فیض حاصل ہو جائے۔
ہم نے دور کے لکھاری تو پڑھ لیے لیکن قریب موجود انسانوں کو نہیں پڑھ سکے، قریب کے انسانوں کے چہروں سے نہ آشنا ہی رہے، زندگی کے علم سے محروم رہے، ہم نے اپنے بچوں کو تعلیم دی ہے کہ اگر تم اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤ گے تو اچھی نوکری مل جائے گی ایک اچھا روزگار ہو جائے گا، لیکن ہم یہ نہیں بتاتے کہ جب تم امتحان میں فیل ہو جاؤ گے تو پھر کیا کرنا ہے، اگر بیٹی کو طلاق ہو جائے تو پھر کیا کرنا ہے، ہم زندگی کے علم سے اپنے بچوں کو روشناس نہیں کروا سکے، اِس کا نتیجہ ڈپریشن، پریشانی خودکشی، اضطراب ہو سکتا ہے۔
پینسلین ایجاد کرنے والے سائنسدان سر الیگزینڈر فلیمنگ نے کہا ہے کہ ہم سائنس دان دنیاوی علم کے بعد نئی ایجادات کے لیے ربِ کریم کے ہی محتاج ہیں، اِن کا جملہ ہے کہ ہم ایک درویش کی طرح وجد میں رہتے ہیں اپنی لیبارٹری میں تاکہ ربِ کریم ہمیں نئی ایجادات کی توفیق عطا فرمائے، وہ فرماتے ہیں کہ آپ یوں سمجھ لیں کہ علم ایک درخت کے ساتھ بندھی ہوئی پوٹلیاں ہیں، ربِ کریم جب چاہیں ایک پوٹلی اپنے پسندیدہ شخص پر گرا دیں۔
معلوم سے نامعلوم ہمیشہ زیادہ ہی رہے گا، اگر ہم یہ کہیں کہ علم معلوم سے نفی کا نام ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔
سرکار ﷺ کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ ایک صحابی آپ کے پاس آئے اور سوال کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی، صحابی بولے کہ اِس کے بعد تو آپ سرکار نے ارشاد فرمایا کہ وہ عالم جو بڑے مجمعے میں کھڑے ہو کر یہ کہہ دے کہ مجھے کچھ معلوم نہیں۔
سائنس کی حقیقت سمندر کے کنارے پتھروں سے کھیلتے ہوئے ایک بچے سے زیادہ نہیں ہے، اِس مختصر زندگی میں ایک انسان کتنا پڑھ سکتا ہے کتنی کتابیں پڑھی جا سکتی ہیں، ضرورت ہے آپ سرکار ﷺ سے نسبت کی اور نگاہِ فیض کی، اکثر عالم معاملات زندگی میں کمزور رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ کتاب کو ہی علم سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ علم جاری زندگی کا علم ہے، انسانوں کا علم ہے، مالک اور مالک کے محبوب سے جڑ جانے کا، علم دونوں جہانوں کا علم ہے، علم بقا کا علم ہے فنا کا علم نہی۔
اللہ پاک آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

