Sponsored Trip
اسپانسرڈ ٹرپ

بھائی انعام رانا نے میرے دورہ اسرائیل پر "اسپانسرڈ ٹرپ" کی پھبتی کسی۔ اس سے پہلے بھی کئی افراد میری سچ بیانی پر یہی طعنہ دے چکے ہیں۔ مجھے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں کیونکہ طعنے اور الزامات سننے کی عادت ہوچکی ہے۔ لیکن اگر اس پر بات نہ کی تو مستقبل میں اسرائیل جانے والوں کے قدم لڑکھڑائیں گے۔ بات کھولنے میں کیا مضائقہ ہے۔
یہ درست ہے کہ جب کوئی ادارہ یا تنظیم کسی دورے کا خرچہ اٹھائے تو اسے اسپانسرڈ ٹرپ کہا جاتا ہے۔ لیکن ان کی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔
پاکستان میں بعض دواساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو عمرے کے ٹکٹ دیتی ہیں کیونکہ وہ اپنے مریضوں کو وجہ بے وجہ ان کی مصنوعات یعنی دوائیں تجویز کرتے ہیں۔ عمرے کے یہ دورے اسپانسرڈ ٹرپ ہوتے ہیں۔
ملک ریاض نے افتخار محمد چوہدری کے بیٹے کے یورپ گھومنے کا خرچہ اٹھایا تھا۔ مناکو کے کیسینوز کی کہانیاں سنے کو ملی تھیں۔ وہ بھی اسپانسرڈ ٹرپ تھا۔
امریکی وزارت خارجہ پاکستانی نوجوانوں کو، جن میں صحافیوں کے گروپس بھی شامل ہوتے ہیں، ایکسچینج پروگرام کے تحت اپنے ملک کے دورے کرواتی ہے۔ یہ بھی اسپانسرڈ ٹرپ ہوتے ہیں۔
بڑی یونیورسٹیاں اور تھنک ٹینک اکثر دانشوروں اور اساتذہ کو بلاتے ہیں۔ ادیبوں شاعروں کو لٹریچر فیسٹولز کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔ وہ سب بھی اسپانسرڈ ٹرپ ہوتے ہیں۔
یہ بات سمجھنی چاہیے کہ لیژر ٹرپ اور اسٹڈی ٹور میں فرق ہوتا ہے۔ دونوں اسپانسرڈ ہوتے ہیں۔ دونوں کے مہمانوں کا خرچہ کوئی ادارہ، کوئی تنظیم اٹھاتی ہے لیکن مقاصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ تفریحی دورے موج مستی کے لیے ہوتے ہیں۔ مطالعاتی دورے کا مقصد علمی ہوتا ہے۔
جب میں پاکستان میں تھا تو کئی بار لٹریچر فیسٹولز میں بلایا گیا۔ اسلام آباد لٹریچر فیسٹول، لاہور لٹریچر فیسٹول، حیدرآباد لٹریچر فیسٹول۔ ان میں منتظمین نے آنے جانے کا ٹکٹ دیا، اچھے ہوٹل میں ٹھہرایا، کھانے پینے کا انتظام کیا۔ ان کی کوئی شرط نہیں تھی کہ اپنے سیشن میں ان کی تعریف کرنی ہے۔ آپ رائٹر ہیں۔ پروگرام میں شرکت کریں۔ لوگوں سے ملیں۔ بس۔
شراکہ والوں نے رابطہ کیا تو کسی بھی پاکستانی کی طرح میں ٹھٹھکا۔ مجھے اسرائیل جانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ وارزون میں جانے میں کوئی خوف نہیں۔ لیکن کیا آپ کی کوئی شرائط ہیں؟
ان سے دو تین بار زوم پر گفتگو ہوئی۔ یشایا، الیسا اور نوام نے یقین دلایا کہ کوئی شرط نہیں۔ اگر آپ اسرائیل کے مخالف ہیں تو بھی مسئلہ نہیں۔ آپ کے پاسپورٹ پر اسٹمپ نہیں لگے گی تاکہ واپس جاکر کوئی پریشانی نہ ہو۔ اگر اس دورے کے بارے میں نہیں لکھنا چاہیں گے تو مت لکھیے گا۔ اگر آپ ہمارے بعض مہمانوں کی طرح نام چھپانے اور فوٹو نہ بنانے کو کہیں گے تو ہم احترام کریں گے۔ حد یہ کہ آپ شراکہ کے خلاف لکھنا چاہیں گے تو بھی ہمیں اعتراض نہیں۔
اچھا؟ پھر ہمیں بلا کیوں رہے ہیں؟ اس لیے کہ اسرائیل آئیں اور گراونڈ رئیلیٹیز، زمینی حقائق اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ خود دیکھیں کہ یہ ملک کیسا ہے۔ یہ معاشرہ کیسا ہے۔ لوگ کیسے ہیں اور پھر یہاں تاریخی اور مذہبی مقامات بھی تو ہیں۔ کیا آپ ڈوم آف دا روک اور مسجد اقصی نہیں دیکھنا چاہیں گے؟
میں راضی ہوگیا۔ جانے سے پہلے ان دوستوں سے بات کی جو شراکہ کے پہلے دورے میں شامل تھے۔ میں ان کے نام نہیں لکھنا چاہتا تاکہ کسی کو مسئلہ نہ ہو۔ لیکن ان میں ایک بہت عزیز دوست پاکستان میں رہتے ہیں۔ روشن خیال اور خوش فکر آدمی ہیں۔ میری وال پر مذہبی لوگوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالتے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کے حامی اور اسرائیلی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں۔ اسرائیل کے دورے میں انھوں نے ہر تقریب میں، ہر ملاقات میں اپنا موقف کھل کر بیان کیا۔ ان کے موقف کو رد کیا۔ سخت سوالات کیے۔ لیکن شراکہ والوں کے ماتھے پر بل نہیں آیا۔
سچ یہ ہے کہ میں نے بھی کچھ ایسا ہی رویہ رکھا۔ میں جو بھی لکھ رہا ہوں، اس سے کچھ اور تاثر بنتا ہے اور وہ ٹھیک بھی ہے۔ لیکن اسرائیل میں ہر جگہ میں نے تلخ اور چبھتے ہوئے سوالات کیے۔ ہر جگہ میزبانوں کے صبر اور برداشت کا امتحان لیا۔ ماننا پڑتا ہے کہ جواب دینے والوں کے ہونٹوں سے مسکراہٹ رخصت نہیں ہوئی۔
یہ دورہ صرف پانچ دن کا تھا لیکن اس میں بیس مصروفیات تھیں۔ یعنی کسی تاریخی مقام یا میوزیم کا دورہ، کسی اہم شخصیت سے ملاقات، کسی لیکچر یا بریفنگ میں شرکت۔ حد یہ کہ ہر ڈنر پر بھی اہم افراد، عہدے دار اور اسکالرز ہمارے منتظر ہوتے تھے۔ اسٹڈی ٹورز ایسے ہی ہوتے ہیں۔ صرف ایک دن اپنے لیے ملا لیکن اس روز میں رسک لے کر الخلیل چلا گیا۔
اس دورے میں کئی صحافیوں نے ہمارے انٹرویوز کیے۔ وہ اخبارات میں چھپے۔ ایک ٹی وی نیوز چینل نے میرا لائیو انٹرویو کیا۔ وہ سب بھی کسی دن شئیر کروں گا۔ صحافی نے سوال کیا تھا کہ غزہ میں بیس لاکھ کی آبادی میں سے ہر گھر سے اسلحہ نکل رہا ہے، آپ ان لوگوں کے بارے میں کیا سمجھتے ہیں، کیا ان میں کوئی امن پسند نہیں؟ میں نے کہا، غزہ کے معصوم لوگوں کے گھروں سے اسلحہ نکل رہا ہے تو اس کے لیے انھیں مجبور کیا گیا ہوگا۔ جب آپ دہشت گرد تنظیم کے محکوم ہوں تو اس کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانا مشکل ہوتا ہے۔ ملالہ یوسف زئی کو نوبیل انعام کیوں ملا؟ کیونکہ انھوں نے سوات میں طالبان دور میں غیر معمولی کام کیا۔ دنیا کو بتایا کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ غزہ کے جابرانہ نظام میں قید لوگوں کے لیے حمماسس کے خلاف کچھ بھی کرنا بہت مشکل ہے۔