Chotha Satoon
چوتھا ستون
![](https://dailyurducolumns.com/Images/Authors/asif-ali-yaqubi.jpg)
صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے یعنی ایک ریاست کی اپنی منزل کی جانب درست سمت میں جانے اور جاننے کے لئے صحافت کا شفاف آئینہ اہمیت کا حامل ہے۔ جتنا یہ آئینہ آزادی صحافت کے پانی سے صاف ہوگا تو اتنا ہی ریاست مضبوط ہوگی۔ آزادی صحافت عوام کی آزادی اظہار کی ترجمانی کرتی ہے۔ پس ریاست اور حکومت کو عوام کے مسائل کے ادارک اور عوامی رائے جاننے کے لئے آزادی صحافت کو مقدم حیثیت دینی چاہیے اور یہی بہترین طرز حکمرانی اور مضبوط ریاست کی بنیاد ہے۔ صحافی برادری ملک و قوم اور انسانیت کے وسیع مفادات کی خاطر عوامی مسائل کو سامنے لاتے ہیں بلکہ وہ حکومت پر بھی اصلاحی تنقید کرتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں آزادی صحافت کی وجہ سے حکمران ہر وقت احتساب کے لئے تیار رہتے ہیں۔ اب اگر ریاست اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ریاست کے دو اہم ستونوں یعنی حکومت اور صحافت کی بات کی جائے تو ہر نظام میں صحافت کے ساتھ امرانہ اور جاگیردارانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ یہاں پر جاگیردارانہ لفظ اس لئے استعمال کیا کہ یہاں پر ہر حکومت نے صحافت کو ریاست کی بجائے حکومت کے ستون بنانے کی چال چلی۔ یعنی صدر ایوب خان کی پریس اینڈ پبلیکیشن آرڈر سے لیکر نواز شریف کے پی ایم آر اے سے ہوتے ہوئے عمران خان کے پی ایم ڈی اے تک سب نے آزادی صحافت پر ناجائز قبضے کے لئے بلاتفریق حربے استعمال کئے۔
آزادی اظہار و صحافت پر آخرالذکر حربہ موجودہ حکومت کی جانب سے پاکستانی تاریخ کا سب سے خطرناک اور خوفناک منصوبہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت حکومت نہ صرف صحافیوں بلکہ سماجی مسائل کو اجاگر کرنے والے سماجی کارکنوں اور عوام کی آواز کو بھی دبانا چاہتی ہے۔ موجودہ حکومت نے ملک میں تمام میڈیا کو حکومتی منشاء پر چلانے کے لئے "پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی" یعنی پی ڈی ایم اے کے قانون کو لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قانون کے تحت میڈیا کو کنٹرول کرنے والے دیگر ادارے پیمرا وغیرہ مجوزہ پی ایم ڈی اے میں ضم ہوجائے گی۔"حکومت کے مطابق یہ اتھارٹی پاکستان میں بننے والی فلمز، الیکٹرانک، ڈیجیٹل اور پرنٹ میڈیا کے مواد اور اشتہارات کو ریگولیٹ کرے گی جب کہ یہ ادارہ نہ صرف پرائیویٹ بلکہ سرکاری میڈیا کو بھی ریگولیٹ کر سکے گا"۔ یعنی اس ادارے کی قیام سے وہی خبر، اشتہار، کالم اور مواد شائع کی جائے گی جو حکومت کو پسند ہو۔
حکومت کے خلاف کوئی بھی خبر نشر یا شائع ہونے کی گنجائش تقریباً ختم ہوجائے گی۔ اس قانون کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر قابو پانے کے بعد ڈیجیٹل میڈیا بھی حکومت کے زیر اثر آجائے گا اور حکومت یوٹیوب اور ویب چینلز پر کام کرنے والے ان سماجی کارکنوں اور صحافیوں پر پابندی لگائیں گے جو حکومت کے عوام دشمن پالیسیوں کو عوام کے سامنے لاتے ہیں یعنی یہ قانون ملک کے آئین میں دیے گئے آزادیٔ اظہار کے اصول پر تباہ کن اثرات مرتب کرے گا۔ پاکستان کے دیگر صحافتی تنظیموں کی طرح میں بھی یونین آف سوشل میڈیا جرنلسٹس صوابی کے صدر کی حیثیت سے اس کالے قانون کو رد کرتا ہوں۔
پاکستان میں آزادئ صحافت کے لئے نڈر اور بہادر صحافی ہمیشہ آگے رہے اور انہوں نے وطن عزیز میں اس آزادی کے لئے شہادتوں کے نذرانے بھی پیش کئے اور آزادی صحافت کے لئے اور قربانیاں بھی دیتے رہیں گے۔ پس اگر واقعی آزادی صحافت اور صحافی برادری کے حقوق کے لئے حکومت کے ارادے نیک اور پرعزم ہیں تو وہ نئے ادارے بنانے کی بجائے پہلے سے موجود اداروں میں اصلاحات کا آغاز کریں اور اس حوالے سے صحافی برادری کو ساتھ لیکر آزادی اظہار کے لئے ٹھوس اقدامات کریں۔