Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asfar Ayub Khan
  4. Aamriyat Ke Saaye

Aamriyat Ke Saaye

آمریت کے سائے

ہم پاکستان کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے آمریت کے گھناونے دور میں آنکھ کھولی۔ پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسا کر عدالتی قتل کا نشانہ بنا دیا گیا تھا۔ ادھر روس افغانستان پر چڑھ دوڑا تھا اور گرم پانیوں تک اس کی رسائی ممکن ہوجانا اب دنوں کی بات تھی۔ امریکا بہادر کو یہ قطعا منظور نہ تھا لہٰذا پاکستانی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈال کر ایک فوجی حکمران کو پاکستانی عوام پر مسلط کر دیا جسے ڈالروں کی چکا چوند نے اندھا کردیا تھا۔ ایک آمر نے اپنی ذاتی آمدنی کے لئے ہمارے ملک کو افغانستان میں جاری امریکی جنگ میں جھونک دیا تھا۔

اسلامائزیشن کا بخار جو مقتدرہ کو چڑھ چکا تھاوہ صرف خواتین کے لباس، شراب پر پابندی اور حددو آرڈیننس تک محدود تھا جبکہ پورے ملک کا نظام اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کی خلاف ورزی میں سود پر چلایا جارہا تھا۔ جمہوریت کے علمبرداروں کو اٹک قلعہ اور شاہی قلعہ لاہور میں پابند سلاسل کردیا گیا تھا اور حق کے پروانوں کی تواضع کوڑوں سے کی جاتی تھی جو ایک بزعم خود امیر المومنین اسلامی آمر نے تعزیر کے طور پر جاری کئے تھے۔ ایسے گھٹن زدہ ماحول میں ہم نے شعور کی منازل طے کیں۔ 1985 میں جنرل نے اپنے اقتدار کو طول بخشنے کے لئے 1985 میں ایک ریفرنڈم کروایا جس میں اسلامی نظام۔ کے نفاذ کو صدر کی 5 سالہ ایکسٹینشن سے مشروط کردیا گیا۔ اسی سال غیر جماعتی انتخابات کروا کر ایک سابق سندھی بیوروکریٹ محمد خان جونیجو کو آمر ضیا کے ماوتھ پیس کے طور پر وزیراعظم بنا دیا گیا۔

ایسے ماحول میں ذولفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کی 1986 میں چکلالہ ایئربیس آمد تالاب میں پتھر کی طرح ثابت ہوئی۔ کم سنی کے کچھ اخبارات کی سرخیاں آج تک یاد ہیں جن میں دختر مشرق کے فقید المثال استقبال کو نئے دور کی آمد کی نوید گردانا گیا۔ ادھر افغانستان پر قبضہ کی امریکی جنگ لڑنے کے دوران لاکھوں افغانی پاکستان در آئے جن کے ساتھ ہی ہیروئن اور کلاشنکوف کی لعنتیں وطن عزیز کی جڑوں میں بیٹھ گئیں۔ تبھی فیض احمد فیض صاحب کی شہرہ آفاق نظم "ہم دیکھیں گے" نے عظیم شہرت اس وقت حاصل کی جب اقبال بانو نے خواتین کے ساڑھی پہننے کی پابندی ہوا میں اڑا کر قذافی اسٹیڈیم لاہور میں پچاس ہزار شائقین کی موجودگی میں کالی ساڑھی پہن کر اس نظم کو اپنے مخصوص انداز میں گایا۔ تب سے اب تک یہ نظم ظلم و استبداد کے خلاف جدوجہد کا ایک استعارہ بن گئ۔

بھٹو کی بیٹی سے خائف گریڈ 22 کے ایک سرکاری ملازم جنرل نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں ان کے انتخابی نشان تلوار سے محروم کر دیا۔ 10 اپریل 1988 میں راولپنڈی اوجڑی کیمپ میں واقع اسلحہ ڈپو کے پھٹنے کا سانحہ پیش آیا جس میں ہزاروں بے گناہوں کی جانیں گئیں اور کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ اس ظلم پر محمد خان جونیجو چپ نہ بیٹھ سکے اور اس سانحے کی بین الاقوامی غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کا اعلان کیا۔ اس "جرم" کی پاداش میں 29 مئی 1988 کو وزیراعظم کو برطرف کردیا گیا اور ایک مرتبہ پھر 90 دن میں انتخابات کا اعلان کیا گیا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی عوام میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہی تھی۔ عالمی افق پر تب تک جنیوا اکارڈ ہو چکا تھا اور سامراج کو فوجی آمر کی چنداں ضرورت نہ رہی تھی لہٰذا 17 اگست 1988 کو جنرل ضیا کو ایک فضائی حادثے میں ہلاک کر دیاگیا جس پر سیاسی بزرجمہروں نے سکھ کا سانس لیا مگر ان کی خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ جنرل ضیا کے جانشین جنرل مرزا اسلم بیگ نے محترمہ بینظیر بھٹو کی مخالفت کے لئے اپنے ہی ایجنٹ نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی بنوائی جس کے لئے تمام اخراجات عوام کے ٹیکسوں کا پیسا چوس کر بنائے گئے "آرمی سیکرٹ فنڈ" سے ادا کئے گئے۔

ان سب اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود محترمہ بینظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ مگر پاکستان کے اصل مالکان کو جمہوریت کا پنپنا منظور نہ ہوا اور محترمہ کی حکومت کو 20 ماہ میں صدر غلام اسحاق خان کے ذریعے ختم کروا دیا۔ 1990 کے انتخابات میں نواز شریف حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے لیکن اس حکومت کو بھی 2 سل سے کم عرصے میں ہٹا دیا گیا۔ میاں صاحب نے عدالت عالیہ کے ذریعے اپنی حکومت بحال کروا لی، مگر اس وقت کے آرمی چیف کی مداخلت پر انھیں گھر جانا پڑا۔ اس کے بعد باری باری محترمہ اور میاں صاحب کی حکومتوں کا خاتمہ کیا گیا اور ایک بار پھر ایک فوجی آمر اقتدار پر قابض ہوگیا۔

پھر ایک مرتبہ امریکا کو افغانستان کے خلاف پراکسی وار لڑنے کے لئے پاکستانی عوام اور فوجیوں کی ضرورت پڑ گئی اور جنرل مشرف امریکا کے آگے لیٹ گیا۔ ملک میں ڈالروں کا سیلاب آگیا اور پراپرٹی کی دنیا پر ڈی ایچ اے کا قبضہ ہوگیا۔ فوج کے سیکنڈ لیفٹیننٹ لینڈ کروزر میں گھومنے لگے اور اس بہتی گنگا سے ملک ریاض سمیت سبھی نے دونوں ہاتھ دھوئے۔ سیاسی محاذ پر این آر او کے ذریعے محترمہ بینظیر بھٹو کو پاکستان لایا گیا اور فوجی قیادت نے راولپنڈی میں محترمہ کو شہید کروا دیا۔

قارئین کرام، اگر آپ ایک مرتبہ دوبارہ کالم کو پڑھیں تو آپ کو ایسا لگے گا کہ یہ آج 2025 کی ہی کہانی ہے بس فوج کا طریقہ کار بدل گیا۔ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر عوام کے منتخب وزیراعظم اور مقبول ترین لیڈر کو جیل میں ڈال دیا گیا اور اسکی پارٹی کو بھی بلے کے انتخابی نشان سے محروم کردیا گیا۔ باجوہ رجیم کے بعد اب ہائبرڈ رجیم کے تحت 17 اراکین اسمبلی والی بوٹ پالشیوں کی پارٹی کو عوام کے سر پر حکمران بنا کر بٹھا دیا گیا۔ اس پارٹی کی حکومت سے اپنے ہی عوام پر گولیاں چلوا کر ان کا سیاسی راستہ بھی بند کردیا گیا اور اب شنید ہے کہ ایک مرتبہ پھر سابق بیوروکریٹ، جو موجودہ وزیر داخلہ بھی ہیں، کے سر پر تاج پہنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

کہتے ہیں، تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ایوب خان جو تاحیات حکمرانی کے خواب دیکھتا تھا اسے اس کے جونیر یحییٰ خان نے گھر بھجوا دیا۔ ضیاء الحق جو 1990 تک حکمرانی کا ریفرنڈم کروا چکا تھا 1988 میں جہنم واصل ہوا۔ جنرل مشرف ایسی عجیب بیماری کا شکار ہوا جس میں جسم کا مدافعتی نظام ہی جسم کو کھاتا ہے۔ لہذا موجودہ فیلڈ مارشل کو بھی اقتدار کے انتظار میں اس کا کوئی جونئر گھر بھیج دے گا اور ہم 25 کروڑ گدھے ایک بار پھر گائیں گے۔

ع

ہم دیکھیں گے
ہم دیکھیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے

جو لوح ازل میں لکھا ہے
ہم دیکھیں گے

لازم ہے کہ ہم۔ بھی دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاوں تلے

دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سروں پر

جب بجلی کڑ کڑ کڑ کے گی
ہم دیکھیں گے

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan