Bachon Ko Bara Hone Dain
بچوں کو بڑا ہونے دیں

نہ فکر کوئی، نہ جستجو ہے
نہ خواب کوئی، نہ آرزوہے
یہ شخص تو کب کا مر چکا ہے
تو پھر بے کفن یہ لاش کیوں ہے
پچھلے دنوں پڑھ رہا تھا کہ امریکہ میں basic level کی کلاسز میں اسٹوڈنٹس کو چاکلیٹ کہ 5 پیکٹس دیئے جاتے ہیں اور ٹیچرز کہتے ہیں کہ ان کو بیچ کر آؤ، اس کا مقصد یہ ہوتا ہے تا کہ بچوں کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔ بچوں کے والدین امیر ہونے کے باوجود بھی وہ چاکلیٹ نہیں خریدتے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو اور بچہ معاشرے میں لوگوں کے رویوں کے بارے میں جانے، والدین کا صرف اتنا کردار ہوتا ہے کہ وہ بچے کہ ساتھ رہتے ہیں تاکہ بچہ محفوظ رہے اور داستان حیرت یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اگر آپ یونیورسٹی میں ڈگری حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے کسی مارکیٹ میں یا کسی بھی لوکل شاپ پر کام کرنا ضرور ی ہوتا ہے اس کی وجہ یہی ہوتی ہے، کہ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔
امریکہ اور باقی ممالک میں وہ اٹھارہ سال کے بعد بچے کو Man کہنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ میں ابھی چھوٹا ہوں اور مجھ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یورپ ممالک میں بچوں کو شروع سے ہی لیڈر بننا سکھایا جاتا ہے اسی وجہ سے آج یورپ ممالک ہماری قیادت کر رہے ہیں۔ حالانکہ پاک و ہند کی حالت بہت مختلف ہے یہاں مائیں اپنے بچوں کو شادی تک یہی سبق دیتیں ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے، پیسے کمانے کو ساری عمر پڑی ہے۔ لیکن جب شادی ہوتی ہے تو پھر نہ والدہ مدد فرماتی ہیں اور نہ اہلیہ محترمہ کا قرب نصیب ہوتا ہے۔ پھر اس بچے اور لاڈلے، کو گلی گلی کے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ اسی لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ بڑا نکما ہے، گیارہ گیارہ بجے تک بستر ہی نہیں چھوڑتا، ایسے والدین سے عاجز کی یہی گزارش ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں آپ کی لغزش ضرور ہے، آپ کا لاڈ ہی ہے جو آپ کے حلق کا کانٹا بن چکا ہے، لیکن عاجز کو مزید تعجب تو تب ہوتا ہے جب ان کا بیٹا ان کی غلطی اور لاڈ کی سزا بھگت بھی رہا ہوتا ہے پھر بھی وہ وہی غلطی اپنے پوتے کہ ساتھ شب و روز دہرا رہے ہوتے ہیں اور کبھی کبھار تو یہ بھی سننےمیں آتا ہے کہ والدین بچوں کو کہہ رہے ہوتے ہیں کہ "بیٹا یہ تمہارے بس کی بات نہیں "، ہونا تو یہ چاہئے کہ والدین بچوں کا حوصلہ بڑھائیں لیکن یہاں الٹا ہوتا ہے، یورپ میں تو یہ سکھایا جاتا ہے کہ بیٹا "ناممکن" کوئی چیز نہیں ہوتی۔
نپولین ہل کی کتاب پڑھ رہاتھا اس میں نپولین ہل کہہ رہے تھے کہ "ڈکشنری (لغت) سے "ناممکن" کا لفظ ہی نکال دینا چاہئے۔ اگر تھامس ایڈیسن ناممکن ناممکن کہتے رہتے تو کیا وہ بلب بنا سکتے تھے، ابن ہیثم اگر ناممکن ناممکن کہتے رہتے تو کیا وہ کیمرے کی ایجاد کا سبب بن سکتے تھے اور تو اور impossible بھی یہی کہتا ہے: I m possible اس لئے بچوں کے ذہن سے ناممکن والا لفظ نکالیں۔
عاجز نے یہ ساری گزارشات اس لئے عرض کیں کہ بعد میں اپنا کیا ہی سامنے آئے گا، بعد میں آپ اپنے بچوں کو کہہ رہے ہوں گے کہ بیٹا یہ کام کرو تو وہ آگے سے جواب دے گا، "میں یہ کام نہیں کر سکتا"۔ (بویا پیڑ ببول کا آم کہاں سے ہویے) اس لئے خدا را بچوں میں خود اعتمادی پیدا کریں۔
اس میں کہیں نہ کہیں قصور وار ہم یعنی معاشرہ بھی ہے، یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ اگر کوئی بچہ ہمت کرکے اگر پڑھائی کے دوران کمانا شروع کر دے تو ہم کہتے ہیں کہ اب یہ نوبت آگی ہے کہ باپ بچے کی تعلیم کے اخرجات بھی پورے نہیں کر سکتا۔ اس لئے خدارا خود بھی بڑے ہوں اور اپنے بچوں کو بھی بڑا ہونے دیں، اگر کوئی پڑھائی کہ دورا ن ہمت کرکے کمانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے کمانے دیں، بلکہ آپ کو خود چاہئے کہ آپ اس پر بوجھ ڈالیں اور اسے کہیں کہ اپنے اخرجات تم نے خود اٹھانے ہیں۔ کل یہ نہ ہو کہ آپ کے بچے ہی آپ سے کہیں کہ اگر ہمیں چھوٹے ہوتے ہوئے اپنے پلو کے ساتھ نہ باندھا۔ ہوتا تو ہم بھی آج خود مختار ہوتے۔
اتنی وفاداری نہ کر کسی سے یوں مدہوش ہو کر غالب
یہ لوگ ایک غلطی پر ہزاروں وفائیں بھول جاتے ہیں

