Trump Card Aur Bunyan Al-Marsoos
ٹرمپ کارڈ اور بنیان المرصوص

بہت سے دوست سعودی وزیر خارجہ کے دورے اور پھر ٹرمپ کے براہ راست ٹویٹ پر حیران تھے کہ اس نے سفارتی دنیا کے بہت سے لوگوں کی سٹی گم کر دی۔ پچھلے 24 گھنٹے میں ہونے والے واقعات سے پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان بھارت جنگ میں کیا کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودیہ میں سعودیہ کا امریکہ کے مختلف شعبوں میں انوسٹمنٹ کا معاہدہ 600 ارب ڈالرز کا طے پایا، جب کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی 142 ارب ڈالرز کی ڈیفنس ڈیل شہزادہ سلمان اور ٹرمپ نے سائن کی۔ اگر اس وقت پاکستان، بھارت کا محاذ گرم ہوتا تو صدر ٹرمپ کا دورہ بھی کینسل ہوتا اور یوں سمجھیں اوورآل ایک ٹرلین ڈالرز داؤ پر لگے تھے۔ سٹیکس اتنے ہائی تھے اور وقت اتنا کم تھا، کہ کم از کم ضمانت کے طور پر صدر ٹرمپ کو خود میدان میں آنا پڑا۔ اب دوبارہ صدر ٹرمپ کے ٹویٹ پڑہیں تو اچھی طرح سمجھ آجائے گی۔
کبھی آپ نے اس تضاد پر غور کیا کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے ابتدائی ایام میں امریکہ کیوں مکمل طور پر ایک خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتا رہا اور پھر اچانک، جیسے کوئی غیبی اشارہ ملا ہو، پوری طرح میدان میں اتر کر جنگ بندی کا سب سے بڑا داعی بن گیا؟ کیا امریکی صدر کو کسی ایٹمی جنگ کے خطرے نے بے چین کر دیا تھا؟ حقیقت تو یہ ہے اور نہایت تلخ حقیقت، کہ امریکہ نے پاک بھارت معاملے میں اپنی پالیسی اور مداخلت کا فیصلہ ٹھیک اُس لمحے کیا جب اس سارے کھیل میں اسرائیل کے ڈرون اور اس کے وسیع تر مفادات براہِ راست زد میں آنے لگے۔ یہ ابھرتی ہوئی صورتحال اس پوری کاروباری، معاشی اور اسٹریٹجک سلطنت کے لیے ایک فوری اور ناقابلِ برداشت خطرہ بن گئی تھی جسے 'امریکہ-اسرائیل' کے گہرے اور پرانے گٹھ جوڑ نے کئی دہائیوں کی منصوبہ بندی سے تعمیر کیا ہے۔ ذرا اس عالمی بھونچال کا تصور کیجیے جو برپا ہوتا اگر اسرائیل ایک بار پھر کسی مسلم ملک اور وہ بھی فلسطین نہیں بلکہ ایک مسلم ایٹمی طاقت پاکستان، کے ساتھ براہِ راست کسی ممکنہ تصادم کے دہانے پر کھڑا نظر آتا!
امریکہ کے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کے ساتھ دفاع اور معیشت کے شعبوں میں وسیع اور گہرے معاہدے، جن میں اسلحے کی بھاری فروخت بھی شامل ہے، شدید خطرے میں پڑ جاتے۔ اگر اسرائیل ایک قوم پرست بھارتی حکومت کی کھل کر پشت پناہی کرتا، جس کے دوسری طرف چین کی واضح حمایت یافتہ پاکستان کھڑا ہو، تو خلیجی ممالک، بالخصوص وہ جو سیاسی طور پر امریکہ کے قریب مگر عوامی اور مذہبی جذبات میں عالم اسلام کے ساتھ مضبوطی سے جڑے ہیں، ایک ناقابلِ بیان دباؤ میں آ جاتے۔ یہ "مہلک منظرنامہ" امریکی دفاعی اتحاد اور اس کے عالمی معاشی مفادات کے لیے کسی طور قابلِ قبول نہیں تھا۔
ساتھ ہی، اس سارے کھیل میں 'ابراہیمی معاہدوں ' کا مستقبل بھی داؤ پر لگ گیا تھا۔ ان معاہدوں کا بنیادی مقصد ہی اسرائیل کو مسلم دنیا میں معاشی، سفارتی اور اسٹریٹجک طور پر بغیر کسی بڑی مزاحمت یا عوامی ردِعمل کے قبولیت دلوانا تھا اور ہاں، یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستان بھی ان کے 'طویل المدتی ایجنڈے' کا ایک اہم حصہ تھا۔ پاک-اسرائیل کسی بھی قسم کا تناؤ اس پورے منصوبے کی بنیادیں ہلا سکتا تھا۔ سو بہت سے بڑے لوگوں کو بھاگنا پڑا، منت ترلے اور یقین دہانیاں کرانی پڑیں اور اس ساری کہانی میں کاسٹنگ ووٹ پاکستان کا تھا۔
مودی نے پاکستان کو فارغ کرنے کا پلان بنا کر آپریشن سندور کا بٹن دبایا اور نتیجتاً پاکستان کو ایک ہفتے میں خطے کا اہم ترین ملک بنا دیا۔ تو بس ایک بندوں کا پلان تھا اور ایک رب کا پلان تھا جو بے شک سب سے بہتر پلان کرنے والا ہے اور جس نے ڈالرز کی رسی سے سب کو باندھ دیا۔