Dr. Zakir Naik Ke Bayanat Ke Tanazaat
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے بیانات اور تنازعات
علامہ اقبال کی نظم "ابلیس کی مجلس شوری" سے اقتباس۔
مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
ہے یہی بہتر الہٰی یاد میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
اس نظم میں ابلیس اپنے چیلوں سے مخاطب ہے اور انہیں مسلمانوں کو ورغلانے کا گر بتاتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ابلیس کے بتائے گر ہم پر خوب آزمائے گئے اور ہم بجائے قرآن کی ہدایت پر عمل کرنے کے حور و غلمان کے قصوں، مزاج خانقاہی اور اس کی تاویلات میں الجھے رہے اور آج تک اس سے باہر نہیں نکل سکے۔
روایات بتاتی ہیں کہ بغداد میں جب منگول افواج نے شہر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو اندرون شہر مبلغین اور علماء انہی تاویلات کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھے۔ اس وقت شہر کے مختلف مقامات پر مسلمان علماء مناظرے کر رہے تھے جن کے موضوع کچھ یوں تھے۔ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں، کوا حلال ہے یا حرام، مسواک کی لمبائی کتنی ہونی چائیے۔ مختلف فرقوں میں تقسیم مسلمان اسی بحث میں مصروف تھے کہ منگول افواج شہر میں داخل ہوگئیں اور اہل بغداد کو خون میں نہلا دیا اور انہوں نے بلا تفریق مسلک سب کو تہ تیغ کر دیا اور خلیفہ وقت کو بھی مع اہل و عیال قتل کر دیا۔
کچھ یہی صورتحال ان دنوں وطن عزیز کی ہے۔ ملک میں معاشی اور سماجی بحران ہے۔ سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔ مسلکی تقسیم اور انتہا پسندی عروج پر ہے۔ آئے دن انتہا پسندوں کے جتھے افواج اور سرکاری اہلکاروں کی لاشیں گرا کر چلے جاتے ہیں اور عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کسی کی جان محفوظ نہیں۔ جب اور جہاں جس کا دل چاہے توہین مذہب کے الزام میں کسی کو بھی قتل کر دیتا ہے اور کوئی شنوائی نہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ انتہا پسند سوچ کو فروغ دینے والے خود بھی محفوظ نہیں رہے جس کے تازہ شکار مفتی طارق مسعود ہیں جو ان دنوں کینیڈا کے یخ بستہ موسم میں اپنی جان کی امان اور پناہ تلاش کر رہے ہیں۔
ایسے میں حکومت وقت کو نامعلوم کیا سوجھی اور کس وزیر باتدبیر کے مشورے پر ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کو جلتی پر تیل چھڑکنے کے لیے بطور سرکاری مہمان مدعو کر لیا جو اپنے زرین افکار سے پہلے ہی انتہا پسندی میں مبتلا عوام کو مزید ٹیکہ لگانے آ پہنچے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب احمد دیدات کے شاگرد ہیں جو بھارتی نژاد جنوبی افریقہ کے شہری تھے۔ احمد دیدات صاحب تقابل ادیان پر گفتگو اور مناظرے کیا کرتے تھے لیکن ان کا انداز گفتگو انتہائی مدلل اور دوستانہ ہوا کرتا تھا اس کے برعکس ذاکر نائیک کا رویہ جارحانہ ہے اور وہ متنازعہ اور غیر معلمانہ گفتگو کر رہے ہیں۔
جب سے ڈاکٹر صاحب پاکستان آئے ہیں حکومتی سطح پر تو ان کی خوب پذیرائی ہو رہی ہے۔ سندھ گورنمنٹ نے انہیں ڈاکٹریٹ کی سند بھی عطا کر دی اور اب وہ شہر شہر پبلک سیشن بھی کر رہے ہیں ڈاکٹر صاحب کے بیانات پر ان کے مقلدین اور مخالفین کے خیالات سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ روز ہی ان کا کوئی معترضہ بیان سامنے آ رہا ہے اور وہ ہر دن کوئی نیا "چھکا" مار رہے ہیں۔
چند دن پہلے انہوں نے بھرے مجمع میں فرمایا "عورت کے پاس صرف دو آپشن ہیں یا تو وہ شادی کر لے یا پھر پبلک پراپرٹی بن جائے" اور المیہ تو یہ ہے کہ ہال میں بیٹھے اکثر حضرات ان کے اس بیان پر تالیاں بجاتے دیکھے گئے۔ حد تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب یتیم خانے کی بچیوں کی تقریب ایوارڈ سے اٹھ کر چلے گئے کہ کہیں"بالغ" بچیوں کو چھو نہ جائیں۔ تو کبھی وہ ٹی وی کی خاتون اینکر کو ڈانٹ رہے ہیں کہ ان سے دور رہیں۔ یہ کیسی پیرانائیڈ سوچ ہے اور کیا وہ پاکستانی معاشرے کا مذاق اڑانے یہاں تشریف لائے ہیں۔
اسی طرح کے ایک سیشن میں لکی مروت کی ایک باہمت بیٹی پلوشہ کے اٹھائے جانے والے ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب کا غیر مدلل اور انتہائی گھٹیا استدلال ان کی ذہنی سطح کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے اپنے فن خطابت کے زور پر اس بچی کی تذلیل کی اور خاموش کر دیا۔ ایک اور بیان میں انہوں نے خواجہ سرا کو چھکا کے نام سے پکارا ہے جو سراسر غیر انسانی اور اس مظلوم طبقے کی توہین ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی فراست کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ گائے اور دوسرے حلال جانوروں کی پیشاب اور فضلہ کو بھی کھانے اور پینے کے لیے حلال اور جائز قرار دیتے ہیں۔ شاید ڈاکٹر صاحب کے انہی افکار اور تلقین کے صلے میں بھارت سرکار نے انہیں سر پہ بٹھا رکھا تھا۔ آج گائے کے پیشاب کو پاک بتانے والا کل شاید گئو ماتا کی پوجا کو بھی عین عبادت قرار دے۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ "پاکستان میں مقیم افراد کے جنت میں جانے کے امکانات بنسبت امریکہ کے زیادہ ہیں" شاید وہ اسی لیے جنت کی تلاش میں پاکستان وارد ہوئے ہیں وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ چالیس سوٹ کیس جن کا وزن لگ بھگ ایک ہزار کلو ہے ساتھ لائے۔ اس ایکسٹرا بیگج پر قومی ایر لائن نے انہیں پچاس فیصد رعایت بھی دی لیکن ڈاکٹر صاحب کی اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی اور وہ پی آئی اے کے سی ای او پر خوب برسے۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب نے تو پی آئی اے سے سفر ہی نہیں کیا اور وہ کسی دوسری ایرلائن سے تشریف لائے اور ان کے یہ سوٹ کیس ان کی ٹیم کے ساتھ تھے جو پی آئی اے سے پاکستان آئی۔ بقول خود ڈاکٹر صاحب کے ان میں ان کے پروگرامز کی شوٹنگ اور چینل کے ایکوئپمنٹ تھے جو سراسر کمرشل کے زمرے میں آتے ہیں۔ اصولاً تو ڈاکٹر صاحب کو اس اضافی سامان کا پورا کرایہ ادا کرنا چاہیے وہ ایک مالدار شخص ہیں اور ایک ٹی وی چینل کے مالک بھی۔ اسلام کا سبق دیتے ہیں تو اس کی مثال بھی پیش کریں۔
اس موقع پر مجھے بچپن میں پڑھا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز چراغ کی روشنی میں کچھ کام کر رہے تھے۔ اس وقت ان کے پاس ایک شخص ملاقات کے لیے آیا تو حضرت عمر نے چراغ گل کر دیا کہ جس تیل سے چراغ روشن تھا وہ حکومت کا تھا اور ملاقات نجی تھی لہذا اس روشنی کو بھی اپنی ذاتی گفتگو کے دوران استعمال نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب باتیں تو شریعہ اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی کرتے ہیں اور ان کا اپنا فعل یہ ہے کہ اپنے لیے ہر گنجائش نکال لیتے ہیں۔
پی آئی اے پاکستان کی قومی ایر لائن ہے کسی کی ذاتی ملکیت نہیں اگر آپ کو پچاس فیصد رعایت بھی دی تو غلط کیا۔ جب وہ پی آئی اے کے چیف پر برس رہے تھے اور بھارت کے گن گا رہے تھے کہ وہاں ہندو تک ان کو ہر قسم کی مراعات دیتے ہیں اور بھگوان سمان مانتے ہیں۔ شرم کا مقام ہے مزے یہاں لے رہے ہیں اور راگ بھارت کا الاپ رہے ہیں۔ مفت ان حضرات کے منھ لگ گیا ہے یہ طبقہ اپنے لیے سب جائز کر لیتا ہے۔ آپ پروگرام کی شوٹنگ کرنے آرہے ہیں اور اپنے پرائیویٹ چینل کی ریکارڈنگ کر رہے ہیں اور احسان ہم پر جتلا رہے ہیں۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ موصوف پاکستان ہی میں قیام کرنا چاہتے ہیں اور یہیں سے اپنا چینل بھی آپریٹ کریں گے۔ پاکستان کی سر زمین ان کے مقاصد کے لیے انتہائی زرخیز بھی ہے اور یہاں ہر پروڈکٹ کے خریدار بھی وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بقول انہی کے یہاں قیام کرنے سے جنت جانے کے امکانات بھی زیادہ ہیں۔ بھارت سے دیش نکالا ملنے کے بعد ملائیشیا بھی شاید ڈاکٹر صاحب کی چھٹی کر دے وہاں ان کے خلاف متعدد مقدمات قائم کیئے جا چکے ہیں کہ وہ مذہبی منافرت پھیلا رہے ہیں۔ عرب دنیا انہیں منہ نہیں لگائے گی کیونکہ اب عرب انتہا پسندی چھوڑ کر جدیدیت کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ بس ایک پاکستان ہی ہے جہاں سرکاری سطح سے عوام تک میں ان کی پذیرائی کے شاندار مواقع موجود ہیں۔ کیونکہ یہاں ہر زومبی کے لیے فضا سازگار ہے۔
میرا تو خیال ہے کہ اس قسم کے کردار اور ان کے بیانات نے بہت سے ذہنوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے جس کے نتیجے میں ایک دوسری سوچ پیدا ہو رہی ہے۔ آج کا نوجوان جب ان مبلغین کی بیان کی گئی روایات اور پر جوش تقاریر کو عقل اور دلیل کی کسوٹی پر پرکھے گا تو بہت مایوس ہوگا اور بجائے ان کی طرف راغب ہونے کے ان سے دور ہوتا جائے گا اور ہو بھی یہی رہا ہے۔ آج کا پڑھا لکھا طبقہ جب اس قسم کے مبلغین کے بیانات اور عقل سے ماورا روایات سنتا ہے تو ان کے عقائد بھی تشکیک کا شکار ہو جاتے ہیں اور سوالات بھی اٹھتے ہیں جن کا اگر تسلی بخش اور عقلیت پر مبنی جواب نہ ملے تو کچے ذہن کے نوجوان بد گمان ہوسکتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کو چاہیے کہ جلد از جلد اپنا دورہ مکمل کریں اور واپس لوٹ جائیں ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیں ہم الحمد للہ مسلمان ہیں ہمیں مزید ڈوز نہ دیں۔