Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Cricket Se Siasat Tak Zawal Ka Safar

Cricket Se Siasat Tak Zawal Ka Safar

کرکٹ سے سیاست تک زوال کا سفر

بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کے خود ساختہ شاہینوں کو انہی کی سر زمین پر دھول چٹا دی۔ اتنی بڑی فتح کے باوجود ان کے کسی کھلاڑی نے نہ تو گراؤنڈ میں سجدہ کیا نہ ہی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے (مجھے یقین ہے کہ تنہائی میں وہ اپنی کامیابی پر سر بسجود ضرور ہوئے ہوں گے) اور نہ ہی ان کے کسی کھلاڑی نے بیان دیا کہ "ہم اسلام کے سفیر ہیں اور اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے" یہی نہیں بلکہ "بھوکے بنگالیوں" نے تو ڈالر کے عوض سیلفیاں بھی نہیں بنوائیں اور نہ ہی کسی مسجد کے منبر پر ایمان افروز خطاب کیا اور نہ کسی تبلیغی مولوی کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھے۔ شاید بنگالیوں کی مسلمانی ہم سے کم تر ہے۔

بنگلہ دیشی کھلاڑیوں نے صرف کرکٹ کھیلی اور خوب کھیلی اور ایک بڑی فتح حاصل کرکے اپنی مسائل میں گھری قوم کو ایک اچھی خبر دی۔ میں بنگلہ دیش کی قوم اور کرکٹ ٹیم کو اس کامیابی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ صرف دعاؤں سے منزلیں نہیں ملتیں بلکہ اس کے لیے عزم۔ حوصلہ اور اچھی کارکردگی بھی درکار ہوتی ہے۔

پاکستان میں کھیلوں کی یہ تنزلی افسوسناک ہے۔ دنیا کی کمزور ترین ٹیموں سے شکست پر قوم شرمندہ اور مایوس ہے۔ حالیہ ورلڈ کپ میں ہمارے شاہینوں کی جس طرح رسوائی ہوئی اور پوری قوم شرمندہ ہوئی وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔ لیکن اسی اندھیرے میں ایک روشن مثال ارشد ندیم بھی ہے جس نے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔ کم ترین وسائل کے باوجود ارشد نے قوم کو اولمپک گولڈ میڈل کا تحفہ دیا۔

ماضی میں ہم بھی کھیلوں کے میدان میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہاکی کے تمام اعزاز ہمارے پاس تھے۔ اسکواش میں ہمارا ہم پلہ کوئی نہیں تھا۔ جہانگیر خان نے پانچ سو سے زیادہ کامیابیاں حاصل کیں اس عظیم کھلاڑی کو اقوام متحدہ نے ایک ہزار سال کے بہترین کھلاڑیوں میں شامل کیا جو ایک اعزاز ہے۔

ایک زمانہ تھا کرکٹ گراؤنڈز میں ہمارے بولر اور بیٹسمین چھائے ہوئے تھے۔ عمران، وسیم، وقار، شعیب کے سامنے دنیا کے بڑے بڑے بیٹسمینوں کی ٹانگیں کانپتی تھیں اسی طرح ماجد خان۔ ظہیر عباس۔ جاوید میانداد۔ آصف اقبال نے اپنی بیٹنگ سے دنیا کے عظیم بالرز کے چھکے چھڑا دیے تھے۔ ہمارا سب سے بڑا حریف بھارت ہم سے چھپتا پھرتا تھا اور اب یہ حال ہے کہ ہم زمبابوے اور امریکہ کی ٹیموں سے بھی ہار گئے اور سپر ایٹ مرحلے تک نہیں پہنچ سکے۔

میرے خیال میں یہ زوال صرف کھیلوں ہی تک محدود نہیں۔ قوموں پر عروج اور زوال ایک دن میں نہیں آتا اس کے پیچھے ایک تاریخ ہوتی ہے اور یہ Totality میں آتا ہے اور ہر شعبہ پر آتا ہے یہی کیفیت ملک میں بسنے والے افراد کی ذہنیت اور رویوں میں بھی نظر آتی ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا پورا معاشرہ بری طرح انحطاط کا شکار ہو چکا ہے۔

بانیان پاکستان روشن خیال اور جدید تعلیم سے آراستہ تھے۔ ان میں اکثریت انتہائی مغرب زدہ تھی وہ پاکستان کو ایک ڈیموکریٹک ریپبلک اور ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے تھے۔ لیکن کچھ قوتوں کا ایجنڈا اس کے برعکس تھا۔ وہ ملک کو رجعت پسندی کی طرف لے جانا چاہتے تھے اور وہ اس میں کامیاب ہو گئے۔

بدقسمتی سے ہمارے قائد آزادی کے ایک برس بعد ہی رحلت فرما گئے ان کی موت پر آج بھی سوالات اٹھتے ہیں جس کا تسلی بخش جواب کسی کے پاس نہیں۔ اسی طرح لیاقت علی خان کو بھرے مجمع میں قتل کر دیا گیا پھر محترمہ فاطمہ جناح بھی پراسرار طریقے سے دنیا چھوڑ گئیں۔ ان واقعات کا جواب اور سبب کسی کے پاس نہیں۔

پاکستان ابتدا سے ایک ڈیموکریٹک ریپبلک تھا لیکن سنہ چھپن میں قرارداد مقاصد کے پاس ہونے کے بعد اس پر "اسلامی جمہوریہ پاکستان" کا لاحقہ لگا دیا گیا۔ اس قرارداد کے پیچھے وہ سیاسی مذہبی جماعتیں اور علما تھے جو قیام پاکستان اور تحریک پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور پاکستان کو "ناپاکستان" کہتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد وہی اچانک پاکستان کے "خیر خواہ" بن بیٹھے اور انہوں نے پاکستان مذہب کے نام پر ہائی جیک کر لیا۔

قرار داد مقاصد منظور ہونے کے بعد بانی جماعت اسلامی مولانا مودودی مرحوم نے بیان جاری کیا کہ "آج ہم نے پاکستان کا قبلہ درست کر دیا" حالانکہ مولانا قیام پاکستان کے مخالفین میں سے تھے۔ اس قرار داد کے بعد یہ خطہ مکمل طور پر تھیوکریسی کی گرفت میں آ گیا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور اب اس سے نکلنا محال نظر آتا ہے۔ آج رجعت پسندوں کے پاس دولت بھی ہے اور اسلحہ بھی اور وہ افغانستان کے فساد میں کشت و خون کا کھیل بھی سیکھ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کھونے کو بھی کچھ نہیں وہ متحد ہیں اور اپنے ایجنڈے پر فوکسڈ بھی ہیں۔

افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہونے کے بعد ان کا اگلا ہدف اسلام آباد ہو سکتا ہے۔ کسی بھی وقت چند ہزار زومبیز مارگلہ کی پہاڑیوں سے اتر کر دارالحکومت میں امن و امان اور حکومتی رٹ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ اس کا ٹریلر تحریک لبیک کے دھرنے کی صورت میں دکھایا جا چکا ہے۔

طالب ڈیورنڈ لائن کو سرحد تسلیم نہیں کرتے اور اٹک تک کے علاقے پر اپنا کلیم کرتے ہیں۔ کے پی میں یہ شدت پسند بہت زیادہ فعال ہیں وہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں فوج اور پولیس چوکیوں پر حملہ کرتے ہیں اور لاشیں گرا کر چلے جاتے ہیں جس کے جواب میں حکومت کی طرف سے وہی گھسا پٹا پھسپھسا بیانیہ کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی جائے گی اور آخری دہشت گرد کو ختم کرکے دم لیں گے۔ اس کے بعد جاں بحق ہونے والے جوانوں کے لواحقین کو "شہادت" کا لالی پاپ اور چند لاکھ روپے کی امداد کا اعلان ہوتا ہے جو ایک کاسمیٹک کے سوا کچھ نہیں۔

اداروں کی طرف سے ان شر پسندوں کے خلاف آئے دن ایک نیا آپریشن شروع کرنے کا اعلان ہوتا ہے کبھی ضرب عضب۔ کبھی استحکام پاکستان اور کبھی عربی اصطلاح والا کوئی اور آپریشن۔ آج کل ایک نیا آپریشن فتنہ خوارج جاری ہے۔ دیکھتے ہیں اس کا حاصل کیا ہوتا ہے۔

بلوچستان میں بھی حالت بہت ابتر ہے۔ گوادر۔ تربت اور دوسرے اضلاع میں ریاست کے خلاف عوامی اجتماعات کا اگر سنجیدگی سے فوری نوٹس نہ لیا گیا تو حالات سنگین بھی ہوسکتے ہیں۔ کے پی میں منظور پشتین اور بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کی تحریک زور پکڑ رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ان سے مذاکرات ہونے چاہئیں اور ان کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔

شنید ہے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کا اتحاد ہو چکا جو تشویشناک ہے۔ دونوں مسلح بھی ہیں اور تربیت یافتہ بھی۔ کل ہی شرپسندوں نے متعدد پنجابی مزدوروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر سفاکی سے قتل کر دیا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے یہی نہیں بلکہ یہ شر پسند حکومتی اداروں پر آئے دن شب خون مارتے رہتے ہیں اور حکومت کا وہی پرانا بیانیہ جس میں اب کوئی دم نظر نہیں آتا اور حکومتی رٹ بھی وہاں نظر نہیں آتی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک بھر میں مذہبی انتہا پسندوں اور طالبان کے سلیپر سیل مدارس۔ مذہبی جماعتوں اور افغان پناہ گزینوں کے روپ میں پہلے ہی موجود ہیں جو ایک کال پر ایکٹیویٹ ہو سکتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر ادارے میں ان کی سوچ در آئی ہے۔ ان کے سہولت کار ہر جگہ موجود ہیں جو کسی بھی وقت ملک میں امن و امان کی صورتحال مخدوش کر سکتے ہیں ان کے مذہبی، سیاسی جتھوں کے پاس ووٹ بینک تو نہیں لیکن اسٹریٹ پاور ضرور ہے جو ملک میں کسی بھی وقت انارکی پھیلا سکتے ہیں۔

ملک معاشی اور سماجی تنزلی کا پہلے ہی شکار ہے۔ عوام نہ صرف حکومت بلکہ ریاست سے بھی بدظن اور مایوس ہو چکے ہیں اور ہر شخص کی خواہش ہے کسی بھی طرح ملک چھوڑ جائے۔ ملک اب ایک ناکام اسٹیٹ کے سوا کچھ نہیں جہاں نہ کسی کی جان و مال محفوظ ہے اور نہ ہی عزت و آبرو ایسے میں ایک عام آدمی کر بھی کیا سکتا ہے۔ ہر شخص کسی بھی طرح ملک چھوڑ دینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے اور لاکھوں لوگ ہجرت کر چکے ہیں جس کے باعث بڑے پیمانے پر برین ڈرین ہو رہا ہے۔

ملک کی جغرافیائی صورتحال تشویشناک ہے اور سرحدیں بھی خطرے میں نظر آتیں ہیں۔ سب سے بڑا صوبہ پنجاب پہلی مرتبہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے طور پر سامنے آیا ہے اور وہاں کی ایک بڑی اکثریت کا ریاست پر سے اعتماد ختم یا کمزور ہو چکا ہے۔ یورپ، امریکہ اور کینیڈا میں سکھوں کی خالصتان کی تحریک زور پکڑ رہی ہے جن کا ایجنڈا گریٹر پنجاب ہے اور یہ پلان کچھ نیا نہیں۔ بھٹو صاحب کے دور میں پنجاب کے سابقہ وزیر اعلیٰ حنیف رامے کی صدارت میں لاہور میں ورلڈ پنجابی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا بھر سے سکھوں اور پنجابی ہندووں نے شرکت کی تھی۔ اس کانفرنس میں گریٹر پنجاب کا نقشہ بھی پیش کیا گیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس پلان پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہو اور کچھ قوتیں اس پلان کو بڑھاوا دے رہی ہوں۔ جب ملک میں بے چینی ہو تو ملک دشمن عناصر کو تقویت ملتی ہے اور ان کو اپنے عزائم پر عملدرآمد کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔

سندھی قوم پرست بھی ایک عرصے سے سندھو دیش کی باتیں کر رہے ہیں۔ شاید سنہ اکہتر میں بنگلہ دیش بننے کے بعد ان کا ایک وفد اندرا گاندھی سے ملا تھا اور تعاون کی درخواست بھی کی تھی جسے کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔

کچے کے علاقے میں ڈاکو راج ہے۔ قانون اور قانون نافذ کرنے والے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح ماضی میں کراچی کو سنگاپور یا بنکاک بنانے اور جناح پور کے مبینہ پلان کی بازگشت رہی ہے۔ افواہیں یونہی نہیں پھیلتیں یا پھیلائی جاتیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ محرکات ہوتے ہیں۔ کراچی میں بھی ایک عرصے سے معاشی استحصال اور عدم اطمینان کی فضا قائم ہے اور اہل کراچی حکومت سے شاکی بھی ہیں لیکن وہ اینٹی ریاست بالکل نہیں۔ ملک کے اس معاشی حب کو اس صورتحال سے نکالنا ہوگا اور عوام کو اعتماد میں لیا جانا اشد ضروری ہے۔

انتہا پسندی اور مذہبی جنون کے اس فرینکسٹائن کے عفریت کو ہمارے ہی اداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے خون پلا کر توانا کیا ہے اب وہ خون کے عادی ہوچکے ہیں۔ اس بلا کو ایک دشمن چاہیے اگر کوئی دوسرا نہ ملے تو یہ اپنوں ہی کا لہو پی کر پیاس بجھائیں گے۔ اب انہیں قابو کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔

ماضی میں آئی ایس آئی کی اسپانسرڈ پی این اے کی تحریک کے سامنے بھٹو جیسا روشن خیال اور عوامی لیڈر بھی نہ ٹھہر سکا۔ نظام مصطفیٰ تحریک اور تحریک شوکت اسلام کے سامنے انہیں بھی جھکنا پڑا اور پھر بھٹو کے بعد مرد مومن مرد حق ضیاء الحق کا رجعت پسندانہ ایجنڈا اور ان کی سرپرستی میں ڈالر کے عوض جہاد اور سماجی و فکری سطح پر قدغن نے ملک میں دائیں بازو کی جماعتوں کو مضبوط کیا اور جس کسی نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی تو اسے پابند سلاسل کر دیا گیا اور سر راہ کوڑے لگوائے گئے۔

ضیاء الحق کے بعد بینظیر اور زرداری بھی ان رجعت پسندوں کے سامنے بے بس نظر آئے اور انہیں لگام نہیں دے سکے۔

نواز شریف اور ان کی جماعت تو تھی ہی دائیں بازو کے حامی انہوں نے بھی انتہا پسندوں کی چاپلوسی کی اور ان کے ایجنڈے کو بڑھاوا دیا۔

عمران آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ تھے وہ خوبرو بھی تھے اور روشن خیال بھی ان سے توقع تھی کہ وہ شاید ان قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں لیکن وہ بھی مصلحتوں کا شکار ہو گئے ان کے نزدیک اولین ترجیح اپنے اقتدار کو طول دینا ہی رہا جس کے لیے وہ ہر قیمت دینے کو تیار تھے۔ انہوں نے بھی شدت پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے طالبان کو اسلام آباد میں دفاتر کھولنے اور دیگر مراعات دینے کا عندیہ بھی دیا اور کئی ہزار انتہائی مطلوب جرائم پیشہ افراد کو رہا بھی کر دیا۔ طالبان نے بھی اس کے جواب میں خانصاحب کی خلافت پر اپنی مہر ثبت کردی اور انہیں اپنا وزیر اعظم مان لینے کا پیغام بھجوایا۔

دوسروں کی طرح خانصاحب نے بھی مذہبی کارڈ کھیلا اور ایک نئی اصطلاح "ریاست مدینہ" متعارف کرائی اور اپنے خطابات میں اسلامک ٹچ دیتے رہے جو محض انتہا پسندوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔

نہ صرف سیاستداں بلکہ فوج نے بھی مذہبی انتہا پسندوں کو مزید تقویت دی۔ سوات میں صوفی نیک محمد کا نفاذ اسلام، تحریک لبیک کے خادم رضوی اور ان کے جتھے کا اسلام آباد کا محاصرہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کون کر رہا تھا۔ کس نے مجمع میں نوٹ تقسیم کیئے اور برملا کہا "ہم بھی آپ میں سے ہیں"

عدلیہ کے فیصلے بھی مصلحت کا شکار نظر آتے ہیں۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ملک میں مکمل تھیوکریسی قائم ہو چکی ہے لیکن اسلام کہیں دکھائی نہیں دیتا البتہ "پولیٹکل اسلام" خوب پھل پھول رہا ہے۔

سردست تو بہتری کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ حکومت اور اداروں کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ ناراض افراد اور مخالفین سے مذاکرات کرنا ہوں گے۔ عوام کو اعتماد میں لینا ضروری ہے معاشی بہتری اور امن و امان قائم کیے بغیر کسی استحکام کا تصور ممکن نہیں۔

خدا کرے میرے خدشات غلط ہوں اور ہم ایک بہتر قوم بن کر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں۔

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan