Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Allama Talib Johari Aur Main

Allama Talib Johari Aur Main

علامہ طالب جوہری اور میں

پہلے تو میں یہ اعتراف کرلوں کہ میں ہرگز اس لائق نہیں کہ علامہ طالب جوہری جیسی شخصیت کے ساتھ خود کو کسی بھی نسبت سے جوڑ سکوں۔ لیکن میری خوش بختی کہ میرا علامہ سے کچھ عرصہ تعلق رہا اور میرا یہ بھی اعزاز ہے کہ علامہ نے میرے مکان میں بحیثیت کرایہ دار قیام کیا۔

میرا مکان عابد ٹاؤن گلشن اقبال میں خالی تھا۔ ایک سہ پہر مجھے کال آئی دوسری کوئی کلب عباس صاحب لائن پر تھے انہوں نے اپنا تعارف کرایا اور فرمایا میں علامہ طالب جوہری صاحب کا سکریٹری ہوں اور کہا علامہ کو مکان کرائے پر درکار ہے انہیں آپ کا مکان پسند آیا اگر کہیں تو مغرب سے پہلے ہم قرآن وہاں رکھ دیں کہ یہ ان کے لیے سعد گھڑی ہے۔ انہوں نے کہا اگر آپ تیار ہوں تو معاملات بعد میں طے کرلیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ علامہ میرے گھر رہیں یہ میرے لیے سعادت ہوگی معاملات بعد میں طے ہوتے رہیں گے آپ قرآن رکھ دیں مکان آپ کا ہوا میں نے مزید کہا کس کافر میں یہ کہنے کی جرات ہوگی کہ گھر میں قرآن رکھنے سے منع کرے میرے لیے یہی کافی ہے کہ میرے گھر میں قرآن کی تلاوت ہوگی اور علامہ کی با برکت شخصیت یہاں قیام کرے گی۔

رات علامہ کے سیکرٹری صاحب گھر پر تشریف لائے اور کرایہ وغیرہ کی تفصیلات جاننا چاہی۔ میں نے جواب دیا جو آپ کا دل چاہے دے دیجئے گا اور اس سلسلے میں میری کوئی ڈیمانڈ نہیں اور علامہ میرے گھر منتقل ہو گئے۔ میں چند دن بعد ان کی خدمت میں حاضر ہوا کہ معلوم کروں کہ انہیں کوئی تکلیف تو نہیں یا مزید کوئی کام کرانا ہو۔ مکان نیا تھا اور اس میں کسی کام کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ علامہ نے مکان بہت پسند کیا اور مجھ سے بڑی نہایت شفقت سے پیش آئے۔

جب تک علامہ میرے مکان میں رہے میں اکثر شام ان کے پاس چلا جاتا ان کی محفل میں بیٹھتا اور ان کی عالمانہ باتیں سنتا۔ میرا تعلق ایک سنی گھرانے سے تھا لیکن وہاں کبھی کوئی ایسی بات نہیں سنی کہ دل آزاری ہوئی ہو۔ ان کی محفل میں بہت باعلم اور مختلف عقائد کے لوگ بھی ہوا کرتے تھے۔ ایک روز کسی نزاعی مسئلہ پر بحث ہو رہی تھی کہ قریبی مسجد سے اذان کی آواز آئی تو علامہ نے برجستہ فرمایا لیجئیے گواہی بھی آ گئی۔ علامہ کی محفل میں میڈیا کے لوگ بھی ہوا کرتے تھے ان میں ایک عون رضوی صاحب بھی تھے جو ٹی وی پروڈیوسر تھے اکثر اپنے پروگرام وہ وہیں ہم سب کی موجودگی میں ریکارڈ کرلیتے۔

علامہ شاید ڈیڑھ دو سال میرے گھر میں مقیم رہے۔ ایک دن ان کے سکریٹری صاحب نے فون پر بتایا کہ علامہ اپنے گھر شفٹ ہو گئے ہیں اور مکان کی چابی برابر والوں کو دے دی ہے۔ شام کو میں گیا تو مجھے پڑوسی نے گھر کی چابیاں اور ایک لفافہ بھی دیا۔ میں اپنے گھر میں داخل ہوا تو دیکھا مکان کی بہت اچھی طرح صفائی ہو چکی تھی۔ جب لفافہ کھولا تو اس میں بجلی و گیس کے متوقع بل کی رقم۔ رواں ماہ کا کرایہ اور مزید ایک ماہ کے کرائے کی رقم تھی۔

میں نے خاموشی سے لفافہ رکھ لیا۔ دوسرے دن لفافہ لے کر علامہ کی خدمت میں ان کے گھر حاضر ہوا بہت محبت اور تپاک سے ملے اور پوچھا میاں مکان تو صحیح سلامت پایا کسی قسم کی کوئی شکایت تو نہیں میں نے عرض کیا حضرت میں مکان کے لیے نہیں بلکہ ایک شکایت کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ حیرانی سے پوچھا کیسی شکایت۔ میں نے لفافہ ان کے آگے پیش کر دیا تو کہنے لگے کیا مطلب۔ کچھ کمی رہ گئی کیا۔ میں نے عاجزی سے کہا حضور یہ مزید ایک ماہ کا کرایہ دینے کی کیا ضرورت تھی میں یہ نہیں لوں گا۔ وہ دینے پر مصر تھے اور میں نہ لینے پر تو انتہائی پدرانہ شفقت سے ڈپٹ کر کہا میاں رکھ لو بڑوں سے بحث نہیں کرتے۔ میرے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں رہا لہذا خاموشی سے لفافہ رکھ لینے ہی میں عافیت سمجھی۔

علامہ کا بڑا پن کہ مجھ جیسے کم علم کی تعریف اپنے محفل میں کیا کرتے تھے جو یقیناً ان کی شفقت اور میری حوصلہ افزائی ہی رہی ہوگی وگرنہ۔ من آنم کہ من دانم۔

علامہ کی شخصیت ان کی علمیت اور مقام کا احاطہ کرنا مجھ سے کم علم کے لیے ممکن نہیں لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں اور میرے اہل خانہ ہمیشہ سے ان کی محرم کی مجالس اور شام غریباں ضرور سنا کرتے تھے ان کا انداز بیان دل میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔ علامہ نے کبھی کوئی نزاعی بات نہیں کی بلکہ ہمیشہ قرآن کے حوالوں سے نہایت شائستہ زبان میں اپنا موقف بیان کیا۔ میرے خیال میں علامہ رشید ترابی۔ علامہ نصیر اجتہادی کے بعد علامہ طالب جوہری ہی وہ آخر عالم تھے جو اپنے سننے والوں کو ساتھ لے کر چلتے تھے ان حضرات کی زبان اور الفاظ کا چناؤ اس قدر جامع ہوتا تھا کہ سامعین پر ایک سحر طاری ہوجاتا تھا۔

میرا تعلق ایک سنی العقیدہ گھرانے سے ہے لیکن ہمارے گھرانے میں دوسری روایات کی طرح محرم کا بھی بے حد احترام کیا جاتا تھا۔ والدہ مرحومہ محرم کے دس دن باقاعدگی سے نوحے اور مرثیے بھی پڑھتیں اور خود بھی رو رو کر نوحے پڑھتیں۔ سات محرم کے دن بڑے اہتمام سے عزت لکھنوی کا نوحہ "اب آئے ہو بابا" سن کے آبدیدہ ہو جاتیں۔ میری چھوٹی بہنیں محلے کے شیعہ گھرانوں میں مجالس میں بھی جاتیں اور کبھی کبھی ماتم بھی کر لیتیں۔

اہل لکھنؤ ہمیشہ ہی سے مسلکی تنازعات سے دور رہے ہیں ان میں شیعہ سنی تفاوت کبھی نہیں رہی۔ آپس میں شادیاں بھی ہوتی تھیں اور خوشی غمی میں سب شیر و شکر ہوتے تھے۔ اس یگانگت اور یک جہتی کو نوابین اودھ نے فروغ دیا اور ایک ایسا مثالی معاشرہ تشکیل دیا جہاں نہ صرف شیعہ سنی بلکہ ہندو اور دوسرے غیر مسلم بھی اسی معاشرے میں گھل مل گئے اور گنگا جمنی تہذیب وجود میں آئی۔ نہ صرف لباس۔ بول چال اور رہن سہن بلکہ ملتے وقت "آداب اور تسلیمات" کہنے کی روایت پڑی کہ گمان ہی نہیں ہوتا تھا کہ کون کس مسلک و مذہب کا پیروکار ہے۔

مسلکی تعصب کی جو فضا اب نظر آتی ہے اس کا چند سالوں پہلے تک کوئی وجود بھی نہ تھا اور میرا تو ماننا ہے کہ اب بھی پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی پیار و محبت سے ملتے اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہیں۔ برا ہو ان مٹھی بھر لوگوں کا جنہوں نے امن و بھائی چارے کی اس فضا میں زہر گھولنے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں لیکن ایسا ممکن نہیں ہم سب آج بھی شیر و شکر ہیں اور انشا اللہ محبت اور خلوص کا یہ سفر جاری و ساری رہے گا۔

محرم کا مہینہ ہے اور میں ان دنوں امریکہ میں ہوں محرم۔ مجالس اور عزا داری جس طرح پاکستان میں دیکھی اگر یہاں مفقود تو نہیں لیکن وہ بات کہاں۔ نذر کی بریانی۔ شیرمال۔ شربت اور پھر مجالس یاد آتی ہیں۔ خاص طور پر عاشورہ کے دن مجلس شام غریباں اور پھر سلام آخر۔

شام غریباں پر اب وہ خطیب۔ ذاکر۔ کجن بیگم۔ مہناز اور ہمنواؤں کے نوحے اور مرثیے اب تک کانوں میں سنائی دیتے ہیں۔ علامہ رشید ترابی تو ہمارے بچپن میں تھے لہذا ان کی مجالس کی صرف ریکارڈنگ ہی سنیں لیکن علامہ نصیر الاجتہادی اور علامہ طالب جوہری کو تو بہ ہوش و حواس سنا اور پھر میری خوش بختی کہ علامہ طالب جوہری کی تو محافل میں بیٹھنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی اور اس کم علم کو وہاں سے کچھ آگہی ملی۔ علامہ کا منفرد انداز بیان اور ان کی مدلل باتیں اب کہاں۔ منبر پر علامہ کا ہونا اور ان کا بیان سننے والوں پر سحر طاری کر دیتا تھا اور آنسو بے اختیار آنکھوں سے جاری ہو جاتے تھے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

313 Musalman

By Hussnain Nisar