Sunday, 08 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anjum Kazmi
  4. IPPs Ko Qaumi Tahweel Mein Liya Jaye

IPPs Ko Qaumi Tahweel Mein Liya Jaye

آئی پی پیز کوقومی تحویل میں لیا جائے

80ءکی دہائی سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا جن بوتل سے باہر نہیں آیا تھا اس کے بعد پھر یہ جن آج تک کسی کے قابو میں نہ آسکا، 80ءکی دہائی سے سے قبل بجلی تب ہی جاتی تھی جب کوئی مقامی یا نیشنل گرڈ میں کوئی نقص پیدا ہوتا تھا ورنہ دن رات کبھی ذہن میں ہی نہیں آتا تھا کہ بجلی بھی جائے گی، آمر ضیاءالحق گیارہ سال ملک پر مسلط رہا، اس کی وردی کی قوت اور ہیبت اتنی زیادہ تھی کہ کسی کو اس کے سامنے احتجاج تو دور کی بات بولنے کی بھی جرات نہ تھی، ان گیارہ سالوں میں بجلی کی طلب بڑھتی رہی مگر آمر کو صرف اپنی وردی سے پیار تھا اس نے بجلی کے معاملے پر توجہ ہی نہ دی اور یوں یہ بحران بڑھتا ہی گیا۔

فوجی آمر کی ہولناک موت کے بعد پاکستان میں جمہوریت بحال ہوئی اور پیپلزپارٹی کو حکومت ملی، بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں، پھرضیاءالحق کے منہ بولے بیٹے نوازشریف نے ان کا مشن آگے بڑھانے کی قسم اٹھائی اور اقتدار کی آنکھ مچولی شروع ہوگئی، 93ءمیں بینظیر دوبارہ وزیراعظم بنیں تو اس وقت تک بجلی کا بحران شدت اختیار کرچکا تھا، ان حالات میں انہوں نے فوری طور پر اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے انڈیپینڈنٹ پاور پلانٹس (آئی پی پیز) بنانے کیلئے معاہدے کئےکیونکہ ڈیم بنانے کیلئے لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

پھر نوازشریف نے 97ءمیں مزید پاور ہاؤسز لگانے کے معاہدے کئے یہ بینظیر اور نوازشریف ادوار میں مہنگے معاہدے تھے جس پر آج تک سوالات اٹھ رہے ہیں پھر مشرف دور میں 22 آئی پی پیز کے معاہدے کئے گئے، اس کے بعد پھر گیلانی دور میں بھی مزید معاہدے ہوئے اور پھر 2013سے2018 تک نواز حکومت میں آئی پی پیز کے معاہدوں کی لائن لگا دی گئی اور یہ نعرہ لگایا کہ مسلم لیگ ن نے ملک سے اندھیرے ختم کردیئے ہیں، یعنی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ کردیا گیا ہے، شہبازشریف نے یہ معاہدے اپنے دور حکومت میں مکمل کرنے کیلئے "شبانہ روز" محنت کی جس کا نتیجہ آج ساری قوم بھگت رہی ہے۔

اتنی مہنگی بجلی اس وقت دی جارہی ہے جو عوام کی قوت خرید سے بہت باہرہے، لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے افراد بھی چیخ اٹھے ہیں، اس کی وجہ صرف مہنگے آئی پی پیز معاہدے ہیں، اس وقت چند مثالیں دے رہا ہوں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئی پی پیز کی گدھوں نے کس طرح حکومتوں کو نوچنا شروع کیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

موجودہ وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے 2015ءمیں نوازشریف کی حکومت میں ملک کو لوڈشیڈنگ سے باہرنکالنے کیلئے بہت بھاری سرمایہ کاری توانائی بحران کے خاتمے کیلئے کی گئی جس کے بعد روپیہ نیچے جانا شروع ہوا، انٹرسٹ ریٹ اوپر گیا، معشیت آگے نہ بڑھی، بجلی کے پلانٹس بہت زیادہ لگا لیئے، بجلی اتنی استعمال نہ ہوئی جس کی وجہ سے جو بجلی بنی ہی نہیں تھی اس کا خرچہ کم بجلی استعمال کرنیوالوں کو اٹھانا پڑاجس کی وجہ سے بجلی کے یونٹ کی قیمت اوپر سے اوپر جانے لگی، اس جنجال سے ملک کو کیسے باہر نکالا جائے یہ آج ہماری حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے، وفاقی وزیر نے اعتراف کیا ہے کہ مسلم لیگ ن نے اندھا دھند پاور پلانٹس لگانے کی مہنگے معاہدے کئے۔

ایک رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ آئی پی پیز مسلم لیگ ن کی حکومتوں میں لگائے گئے، نجی ٹی وی چینل کی اینکر ماریہ میمن نے اپنے پروگرام میں آئی پی پیز کے بارے میں بتایا کہ عوام کو دیئے گئے بجلی کے تباہ کن بلوں کے پیچھے شریف خاندان کے لگائے گئے آئی پی پیز ہیں، 3 پاور پلانٹس ایسے ہیں جو بالکل بجلی نہیں بنا رہے لیکن کیپسٹی ادائیگیاں انہیں ادا کی جارہی ہیں، 37 پاور پلائنٹس ایسے ہیں جو 25فیصد سے کم بجلی پیدا کررہے ہیں اور 60 پلانٹس ایسے ہیں جو 25 فیصد تک بجلی پیدا کررہے ہیں لیکن کیپسٹی ادائیگیاں پوری وصول کررہے ہیں، دنیا میں یہ اپنی نوعیت کے واحد پلانٹس ہیں جن کو بند رکھ کر بھی کمائی کی جارہی ہے۔

معروف تحقیقاتی رپورٹر زاہد گشکوری نے سلیم صافی کے پروگرام جرگہ میں بتایا کہ حبکو پاور پلانٹ 1997میں لگایا گیا، یہ پلانٹ کئی سالوں سے بند پڑا ہے لیکن حکومت اسے ماہانہ ایک ارب 98کروڑ روپیہ دے رہی ہیں، یہ پلانٹ حکمران طبقے کا ہے، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے 56 بڑے سیاستدان اور شوگر ملز مالکان کے آئی پی پیز کے ہیں، یہ مجموعی طور پر 1275ارب روپے لے چکے ہیں، یہ لوگ موجودہ اور گزشتہ حکومتوں میں رہے، انہوں نے مزید بتایا کہ 2019میں عمران حکومت نے آئی پی پیز معاہدوں پر نظرثانی کی اور ریٹ میں بہت معمولی کمی کرکے ان پلانٹس کو دس سال تک کی توسیع دیدی، ان کا کہنا ہے کہ 1996سے لیکر آج تک حکومت عوام کی جیب سے روزانہ 4 ارب روپے نکال کر ان آئی پی پیز کو دے رہی ہے، یہ پاور ہاوسز 52 فیصد بند پڑے ہیں، معاہدوں کی وجہ سے حکومت پاکستان ان کو ادائیگیاں کرنے کی پابند ہے۔

سینئر اینکر عمران ریاض نے بتایا کہ وزیراعظم کے بیٹوں سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کے بھی آئی پی پیز ہیں، اسلام آباد کے رپورٹر ذیشان یوسفزئی نے خبر دی ہے کہ 3کول پاور پلانٹس کو سالانہ 700ارب روپے کی کیپسٹی ادائیگی کی گئی، یہ فرنس آئل سے دوگنی مہنگی بجلی 60روپے یونٹ بناکر دے رہی ہے، نیپرا متعدد بار اوور انوائسنگ کا ذکر کرچکی ہے۔

سابق نگران وزیر اعجاز گوہر بھی مہنگی بجلی پر پھٹ پڑے ہیں، ان کاکہنا ہے کہ بجلی کی فی یونٹ قیمت 30روپے بنتی ہے مگر حکومت 60 روپے میں دے رہی ہے، 52 فیصد پلانٹس حکومت کے ہیں جبکہ 48 فیصد آئی پی پیز 40 بڑے خاندانوں کے ہیں، وہ بھی پچاس فیصد کی کیپسٹی پر چل رہے ہیں مگر افسوس عوام سے پوری قیمت وصول کی جا رہی ہے، انہوں نے 106آئی پی پیز کا ڈیٹا سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے، معروف کامرس رپورٹر مہتاب حیدر کا کہنا ہے کہ آئی پی پیز کے لوگ سب پاکستانی ہیں کوئی باہر کا سرمایہ کار نہیں ہے، رواں سال ان کو دو ہزار ارب روپے دیئے گئے اگلے سال 2700ارب روپے دیئے جائیں گے۔

مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اپنے ادوار میں ملک کو تباہی کی جانب دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، عمران حکومت ختم کرکے ملک بچانے کا دعوی کرکے آنیوالوں نے ہی ملک کی بربادی کی بنیاد رکھی تھی، سب سے زیادہ آئی پی پیز مسلم لیگ ن نے لگائے، ملک کی اس وقت بجلی کی طلب 23 ہزار میگا واٹ ہیں مگر سب نے مل کر 48 ہزار میگا واٹ کے پلانٹس لگانے کی اجازت دیدی، اس وقت 25ہزار کمانے والے شہری کو 18000روپے بجلی کا بل آرہا ہے، لوگ جتنی بدعائیں حکمرانوں اور مہنگے پلانٹس لگانے والوں کو دے رہے ہیں اگر ان کی بدعائیں قبول ہوگئیں تو ان میں سے ایک بھی نہیں بچے گا۔

کہتے ہیں دنیا مکافات عمل ہے، آج شہبازشریف ملک کے وزیراعظم ہیں، یہ جب وزیراعلی پنجاب تھے اور وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو موصوف مینار پاکستان پر ٹینٹ لگا کر ہاتھ والا پنکھا جلتے ہوئے ڈرامے بازیاں کرتے تھے، آج جب وہ وزیراعظم ہیں توانہی کے لگائے ہوئے پلانٹس کی مہنگی بجلی سے عوام مررہے ہیں اور یہ اب بھی ملک کو پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے اپنے کپڑے بیچنے کو چورن بیچ رہے ہیں۔

مجھے تو حیرت ہوتی ہے جناب "حافظ صاحب" کو سرحدوں پر دشمن کی دہشتگردی تو نظر آرہی ہے مگر سیاستدانوں نے مہنگی بجلی کے معاہدے کرکے عوام کے ساتھ معاشی دہشتگردی کی ہے وہ ان کو نظر نہیں آرہی، قوم کی نظر اب ان کی طرف ہیں کہ وہ ان معاشی دہشتگردوں کے خلاف آپریش کب شروع کریں گے اور عوام کوان سے نجات دلائیں گے۔

ماہر معاشیات شبر زیدی نے اس مسئلے کا ایک حل بتایا ہے کہ حکومت تمام آئی پی پیز خود خرید لے اور ان کو قسطوں میں ادائیگیاں کریں، حکومت 50ارب روپے کی مالیت سے لگائے گئے یہ پاور پلانٹس کو اب تک 450ارپے روپے ادا کرچکی ہے مگر میرے نزدیک یہ کوئی حل نہیں، اگر حکومت نے یہ پلانٹس خرید لئے تو کل کو یہی پلانٹس پھر حکومت کیلئے دردسر بن جائیں گے جیسے پی آئی اے اوردیگر ادارے دردسر بنے ہوئے ہیں اس لئے بہتر ہوگا کہ تمام نجی پاور پلانٹس کو قومی تحویل میں لے لیا جائے اور ان کو دس سال بعد ادائیگیاں شروع کی جائیں کیونکہ انہوں نے عوام کو بہت لوٹ لیا ہے، یہ واحد حل ہے جس سے عوام کو سکھ کا سانس مل سکتا ہے ورنہ آئی پی پیز معاہدے 2036تک کے ہوئے ہیں، اس وقت تک عوام میں شاید ہی کوئی زندہ بچا ہوگا۔

Check Also

Sahib e Aqleem e Adab

By Rehmat Aziz Khan