Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Khakwani
  4. Sahil Nadeem Ki Statement Aur Meri Nacheez Raye

Sahil Nadeem Ki Statement Aur Meri Nacheez Raye

ساحل عدیم کی سٹیٹمنٹ اور میری ناچیز رائے

سوشل میڈیا پر آج جو تنازع چل رہا ہے، وہ ساحل عدیم کا پچانوے فیصد خواتین کو جاہل کہنا اور وہاں بیٹھی ایک خاتون کے اعتراض کا معاملہ ہے، اس میں اضافہ خلیل الرحمن قمر کی حسب روایت بدزبانی کا بھی کر لیں۔

میرا ارادہ تھا کہ اس پر کچھ نہ لکھا جائے۔ اس پر ایک دو پوسٹوں کو بھی اس لئے شیئیر کیا کہ وہ اس معاملے کا ایک مختلف رخ پیش کر رہی تھیں۔ تاہم بعض احباب نے سمجھا کہ شائد یہ میرا موقف ہے، اس پر طنز اور تنقید بھی ہوئی۔ کچھ لوگ تو اس چکر میں بلاک بھی ہوگئے۔ خیر اب جبکہ اتنا کچھ ہوہی گیا ہے تو مجھے کچھ نہ کچھ لکھنا چاہیے۔ میرے خیال میں تین چار مختلف نکات اہم ہیں۔

میں ساحل عدیم صاحب کو فالو نہیں کرتا، اگر میں اپنے پسندیدہ سکالرز میں سے ہزار لوگوں کی فہرست بنائوں تو شائد وہ ہزار میں بھی نہ آ سکیں۔ ایک آدھ بار انہیں سنا تو کچھ عجیب سا لگا، مزا نہیں آیا۔ ان کا ابلاغ مجھے اچھا نہیں لگا اور بس یوں کہہ لیں کہ ہماری فریکوئنسی بالکل ہی نہیں ملی۔ کچھ اچھی وائبز نہیں آئیں مجھے۔

(کم وبیش یہی تاثر میرا انجینئر مرزا محمد علی جہلمی کے حوالے سے بھی ہے۔ اسے جملہ معترضہ سمجھ لیں)۔

خلیل الرحمن قمر کو البتہ میں سخت ناپسند کرتا ہون۔ میرے نزدیک وہ پرلے درجے کے جاہل، غبی العقل، نہایت درجے کے متکبر اور گھٹیا سے انسان ہیں۔ ایسے شخص کو جسے بات کرنے کی تمیز نہ ہو، جو خواتین کو گالیاں دیتا ہو، اپنی بدزبانی اور گھٹیا زبان پر فخر کرتا ہو، ایسے شخص کو نیشنل ٹی وی ٹاک شوز میں بلانا ہی نہیں چاہیے۔

ساحل عدیم کے متنازع بیان والا کلپ میں نے پورا سنا۔ بعض لوگوں نے اور شائد چینل والوں نے مختصر کلپ پھیلا کر ایک خاص قسم کا منفی اور سنسنی خیز تاثر بنایا۔ تفصیلی کلپ سنیں تو یہ تاثر بدل جاتا ہے۔

میں نے اپنی وال پر وہ کلپ شیئر کیا کہ تنقید کرنی ہے تو پہلے کلپ تو پورا سن لیں، اس پر بعض احباب نے تبصرہ کیا کہ میں ساحل عدیم کی سائیڈ لے رہا ہوں۔ بھائی یہ تو پہلا بنیادی اصول ہے۔ جس پر تنقید کرنی ہے پہلے اس کا موقف تو جان لیا جائے، پہلے یہ تو پتہ چل جائے کہ اس نے کہا کیا ہے؟

ساحل عدیم نے خواتین کو ایسے ہی پچانوے فیصد جاہل نہیں کہا، اسکا بہرحال ایک تناظر اور پس منظر ہے۔ اس خود ساختہ جینئس نے پہلے مردوں کو بھی جاہل اجڈ کہا، شائد پچھتر فیصد مردوں کو اس کیٹیگری میں شامل کیا جبکہ خواتین کو پچانوے فیصد تک لے گیا۔ یہاں پر جاہل سے ساحل عدیم کی مراد یہ رہی کہ انہیں دین کا علم نہیں اور وہ کوکنگ، میک اپ، ڈرامہ اور دیگر جگہوں پر موجود ہیں ان سے آپ ڈیٹ بھی رہتی ہیں، مگر دین کا علم نہیں حاصل کرتیں وغیرہ وغیرہ۔

یہاں پر ساحل عدیم سے تین بنیادی غلطیاں ہوئیں۔

پہلی بات تو یہ کہ جینوئن سکالرز کبھی سوئپنگ سٹیٹمنٹ نہیں دیا کرتے۔ پچھہتر فیصد مرد اور پچانوے فیصد عورت جاہل قرار دینے کا ڈیٹا سیمپل انہوں نے کہاں سے لیا؟ یہ غیر سائنسی اور بذات خود جاہلانہ بات ہے۔ میرا نہیں خیال کہ ایکچوئل یہ پوزیشن ہے۔ پھر جو شخص طاغوت کی اصطلاح کو نہیں جانتا، وہ جاہل کیسے ہوگیا؟

کسی ایک خاص اصطلاح کو نہ جاننے کا مطلب جاہل ہونا نہیں۔ اس اصطلاح کے مفہوم کو بہت سے لوگ جانتے ہیں اور اگر نہیں جانتے تب بھی ان کے ذہن میں اس کا ایک تاثر ضرور موجود ہے۔

دوسرا یہ کہ جینوئن سکالرز اپنے گفتگو میں ایک ایک لفظ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، وہ احتیاط کے ساتھ الفاظ برتتے ہیں۔۔ جاہل ایک سراسر منفی لفظ ہے اور کسی داعی کو یہ ان معنوں میں بالکل نہیں استعمال کرنا چاہیے جیسا کہ ساحل عدیم نے اسے برتا۔

تیسرا یہ کہ ساحل عدیم صاحب کا ابلاغ کمزور اور مبہم لگا۔ وہ اپنے بات بہتر الفاظ میں سلیقے سے سمجھا سکتے تھے، مگر نہیں کر پائے۔ پھر جب حاضرین میں بیٹھی خاتون نے سوال کیا تو اسے بھی ساحل عدیم اچھے سے ہینڈل نہ کر سکے۔ وہ الجھ گئے اور پھر بات کو غیر ضروری طور پر پھیلا دیا۔

نتیجہ یہ نکالا جا سکتا ہے کہ ساحل عدیم صاحب جس سطح کے سکالر ہیں، ان سے ایسی ہی گفتگو کی توقع کرنی چاہیے، جو انہوں نے کی اور پھر حسب توقع ایشو بھی پیدا ہوگیا۔ البتہ اس ایشو کو لگتا ہے ٹی وی چینل والوں نے خوب ہوا دی ہے، مقصد اپنی ریٹنگ بہتر بنانا ہے۔ ورنہ ایسے چیزیں اگر ریکارڈڈ پروگرام ہے تو ایڈٹ ہوجانی چاہئیں۔

اب اس خاتون کی طرف آتے ہیں جنہوں نے اعتراض کیا، یہ کہنا چاہیے کہ اس بی بی کو بھی بات کرنے یا سوال پوچھنے کا کوئی سلیقہ نہیں آتا۔ انہوں نے معافی مانگیں، معافی مانگین کی رٹ تو لگائے رکھی، مگر ان کا اپنا رویہ اور طریقہ بھی کج بحثی کا رہا۔ اس میں بلکہ خاصی بدتمیزی سے یہ بھی کہا کہ آپ عربی میں آیات سنانے لگ گئے، تو کیا آیات فارسی یا انگریزی میں بھی ہیں؟

اس بات پر تو اس خاتون کو معافی مانگنی چاہیے۔ یہ باقاعدہ بدتمیزی اور جہالت تھی۔ آپ اپنی بات ضرور کہیں مگر شائستگی اور دلیل کے ساتھ۔۔ اگر مائیک آپ کے ہاتھ میں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مقرر کو بولنے ہی نہ دو۔ میرے حساب سے اس خاتون نے بھی اپنی بھرپور جہالت کا مظاہرہ کیا اور یہ طرزعمل درست نہیں تھا۔

خلیل الرحمان قمر صاحب بدزبان ہیں، ان کی آواز بلند ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر وقت شور مچانے اور کھپ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس پروگرام میں انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اگرچہ اس لڑکی کی اس پر فہمائش بنتی تھی کہ قرآن کے حوالے کا محضکہ اڑانے کی کوشش کیوں کی تاہم خلیل الرحمن قمر اپنے اچھے بھلے کیس کو بھی اس بھونڈے انداز میں بگاڑ دیتے ہیں کہ اس کا کچھ نہیں ہوسکتا۔ میرے خیال میں خلیل قمر یہ ڈیزرو ہی نہیں کرتے کہ وہ خواتین کے حوالے سے کسی ٹاک شو کا حصہ بنیں۔

سکینڈ لاسٹ بات سوشل میڈیا یوزرز کے لئے یہ ہے کہ اسے اصول بنا لیں کہ کبھی کسی ایک دو منٹ کے کلپ کو سن کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنا۔ کوشش کریں کہ کم از کم بھی پانچ دس منٹ آگے پیچھے کی گفتگو سنی جائے تاکہ سیاق وسباق کا پتہ چل سکے۔ بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ آپ ایک منٹ کا کلپ سن کر کوئی اور رائے بنا لیتے ہیں، مگر بعد میں پھر اسے بدلنا پڑ جاتا ہے۔

آخری بات اپنے بعض دوستوں سے یہ کرنا ہے کہ تھوڑا صبر اور تحمل سے بھی کام لے لیا کریں، عجلت میں نتائج اخذ نہ کیا کریں اور نہ ہی سوئپنگ سٹیٹمنٹ جاری کیا کریں۔ جب میں نے یا کسی بھی لکھنے والے نے کچھ کہنا ہوگا تو وہ اپنی پوسٹ بنا کر لکھے گا، اپنے پورے سیاق وسباق اور دلائل کے ساتھ۔

بہت بار ہم ایسی پوسٹیں بھی شیئر کر دیتے ہیں جن سے جزوی یا مکمل اتفاق نہیں ہوتا، اختلاف ہوتا ہے مگر اس لئے لگا دیتے ہیں کہ اس میں ایک نیا اور مختلف اینگل موجود ہوتا ہے تو اپنے قارئین کے لئے وہ رخ پیش کرنا مقصد ہوتا ہے۔ ہر شیئر کی جانے والی پوسٹ سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ جس پوسٹ سے اتفاق ہوتا ہے، اس کے لئے تائیدی نوٹ لگایا جاتا ہے۔

وما علینا الاالبلاغ۔

Check Also

Hum Kis Liye Likhte Hain?

By Nasir Abbas Nayyar