Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Amir Khakwani
  4. Saeed Book Depot

Saeed Book Depot

سعید بک ڈپو

سعید بک ڈپو والے معاملے پر شام میں چونکہ میں نے ایک بہت تفصیلی پوسٹ کی تھی، اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ اب جب کہ معاملے میرے نزدیک بہت ہی کلیئر ہوچکا ہے اور بادی النظر میں سعید بک ڈپو پوری طرح جھوٹا اور اس معاملے میں غلطی پر نظر آرہا ہے تو اس پر بھی پوسٹ کی جائے۔

ابھی میں نے اسامہ اقبال خواجہ کی ویڈیو سنی، وہی جنہوں نے سعید بک ڈپو کے حوالے سے احتجاجی پوسٹ کی تھی اور یہ سب ایشو پیدا ہوا۔ اسامہ خواجہ نے اپنی ویڈیو میں رسیدیں دکھائیں، انہوں نے وقت بھی بتایا اور ان کے دئیے گئے شواہد بظاہر بڑے مضبوط، ٹھوس اور ناقابل تردید نظر آ رہے ہیں۔

سب سے اہم بات جو اسامہ اقبال خواجہ نے بتائی کہ سعید بک ڈپو سے جو کتابیں خریدی گئی تھیں، وہ ہرگز امپورٹیڈ کتابیں نہیں تھیں، بلکہ وہ پاکستانی پبلشر کی شائع کردہ مشہور خواتین ناول نگار نمرہ احمد اور عمیرہ احمد کے ناول تھے۔

اسامہ اقبال خواجہ کے مطابق ان کے ایک دوست نے کراچی سے فون کرکے انہیں کہا کہ سعید بک ڈپو جا کر نمرا احمد کا ناول جنت کے پتے اور حالم (دو حصے) اور عمیرہ احمد کا ناول امربیل مجھے فوری خرید کرکے کورئیر کر دو۔

اسامہ کہتے ہیں کہ چونکہ مجھے دوست نے سعید بک ڈپو کا کہا تو میں سیدھا ادھر ہی گیا، اس لئے جو کہتے ہیں کہ مارکیٹ سٹڈی کرنی چاہیے تھی، انہیں یہ بات سمجھ آ جائے گی۔ خیر وہاں سعید بک ڈپو پر جنت کے پتے ناول نہیں تھا جبکہ حالم کے دو جلدیں اور عمیرہ احمد کا ناول امربیل مل گیا۔ پہلے کائونٹر والے نے پانچ ہزار بیس روپے 5020 بل بنایا اور پھر کہا کہ نہیں غلطی ہوگئی تھی، پھر انہوں نے نیا بل پچھتر سو کا بنا دیا، بیس روپے کتابوں کے لئے شاپنگ بیگ کے لئے اور یوں 7520 بل بنا۔

اسامہ خواجہ نے چونکہ تیسری کتاب جنت کے پتے بھی خریدنی تھی، وہ اس کے لئے اس کے قریب واقع سٹور بک سرچرز کے پاس گئے اور ان سے جنت کے پتے ناول مل گیا۔ وہاں پر اسامہ خواجہ نے ویسے ہی پوچھا کہ حالم دونوں حصے اور امربیل کتنے کا ملے گا تو بک سٹور والے نے بتایا ستاون سو 5700روپے۔ اسامہ خواجہ جو ان کتابوں کے پچھتر سو بھر کر آئے تھے یعنی سیدھے اٹھارہ سو روپے زیادہ۔ وہ فطری طور پر تلملا گئے اور فوراً واپس سعید بک ڈپو گئے۔

اسامہ اقبال خواجہ کے مطابق انہوں نے ہرگز کوئی ہنگامہ نہیں کیا۔ اس وقت کیش کائونٹر پر دو لوگ کھڑے تھے، انہوں نے ان کے جانے کا انتظار کیا اور پھر نرمی سے کیش کائونٹر والے کو کہا کہ آپ نے یہ کتابیں مجھے بہت مہنگی بیچی ہیں، اٹھارہ سو روپے زیادہ۔ یہ کتابیں مجھے سامنے والی دکان سے سستی مل رہی ہیں، آپ اپنی کتابیں واپس پکڑیں اور میرے پیسے واپس دیں۔ اسامہ کے مطابق اس پورے عمل میں بمشکل دس پندرہ منٹ لگے ہوں گے۔

سعید بک ڈپو والوں نے صاف انکار کر دیا اور عذر لنگ پیش کیا کہ ہمارا بل بن جائے تو تبدیل نہیں ہوسکتا وغیرہ۔ اسامہ کا کہنا ہے کہ یہ بات اس لئے غلط ہے کہ انہوں نے خود مجھے پہلے پانچ ہزار کا بل بنا کر دیا اور پھر اسے درست کرکے پچھتر سو کا بل بنا دیا تو یہ بل دوبارہ نہیں بن سکنے والی بات تو صریحاً غلط ہے۔

اسامہ اقبال خواجہ کی ویڈیو سے یہ بات صاف ہوئی کہ سعید بک ڈپو والوں نے صریحا جھوٹ بولا، انہوں نے اپنی صفائی میں یہ کہا کہ انہوں نے امپورٹیڈ کتاب منگوائی تھی اور کسٹمر نے پائریٹیڈ کتاب خریدی تھی اور امپورٹیڈ کتاب ہونے کے ناتے وہ مہنگی تھی، وغیرہ۔

یہ تو سراسر بکواس لگ رہی ہے۔ کیونکہ یہ ناول لاہور کے مشہور پبلشر علم و عرفان نے چھاپے ہیں۔ تو اس میں تو امپورٹیڈ کتاب والی کوئی بات ہی نہیں۔ یہ سعید بک ڈپو والوں کی دروغ گوئی ہی ہے۔

ان کا یہ موقف بھی غلط ثابت ہوتا ہے کہ اس نوجوان نے ہنگامہ کیا۔ اسامہ اقبال خواجہ نے چیلنج کیا ہے کہ سعید بک ڈپو والے سی سی ٹی وی فوٹیج دکھائیں جس میں وہ نرمی اور آرام سے بات کر رہے ہیں ہرگز کوئی ہنگامہ آرائی نہیں کی۔

میرے خیال میں معاملہ ایسے ہوا ہوگا کہ سعید بک ڈپو نے کتاب بغیر کسی ڈسکائونٹ کے بیچی ہوگی جبکہ بک سرچرز یا دوسری دکان کا جو بھی نام ہے، اس نے وہ کتاب کچھ ڈسکائونٹ کے ساتھ دی، بیس پچیس یا تیس فیصد ڈسکائونٹ ممکن ہے دیا ہو۔

اگر یہ صورتحال ایسے ہی ہے تو پھر سعید بک ڈپو کو وضاحت پیش کرنی چاہیے۔ اگر انہوں نے کتاب پر لکھی قیمت کے مطابق فروخت کی تو قانونی طور پر انہیں اس کا حق بنتا ہے، تاہم اگر مارکیٹ میں وہ کتاب زیادہ سستی مل رہی ہے تو پھر کچھ لحاظ سعید بک ڈپو کو بھی کرنا چاہیے۔

اسی طرح انہیں واضح کرنا چاہیے کہ اگر مقامی مصنف کی مقامی پبلشر کی کتاب ہے تو انہوں نے دروغ گوئی سے کام لیتے ہوئے اوریجنل اور پائریٹیڈ کتاب کی کہانی کیوں گھڑی۔ بظاہر تو سعید بک ڈپو والوں نے برادرم رئوف کلاسرا کے سامنے غلط تصویر اور غلط معلومات رکھیں اور انہیں بھی دھوکا دیا۔

میرا خیال ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ سعید بک ڈپو کو اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔ مارکیٹ فورسز کے ساتھ چلنا چاہیے۔ اگر وہ ناجائز طور پر مہنگی کتابیں فروخت کریں گے تو پھر ان کے کسٹمر ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔

جو کتابیں امپورٹ کی گئیں ان کی زیادہ قیمت قابل فہم ہے۔ تاہم مقامی پبلشر کی کتابوں کے حوالے سے تو پالیسی مختلف ہونی چاہیے۔ سعید بک ڈپو ایک بڑا سٹور ہے اور اسے چلتا رہنا چاہیے، تاہم انہیں اپنی سخت بے لچک پالیسیوں پر کچھ نظرثانی کرنی چاہیے۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti